اسرائیل ایک ناجائز اور دہشت گرد ریاست ہے جس کا وجود صرف مشرقِ وسطیٰ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔ امریکا اور برطانیہ سمیت زیادہ تر مغربی ممالک اس ناجائز صہیونی ریاست کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسرائیل بغیر کسی ڈر اور خوف کے خطے میں جہاں چاہتا ہے دہشت گردی کی وارداتیں کرتا پھرتا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک واردات اس نے یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں واقع ایک ایرانی سفارتی عمارت پر حملہ کر کے انجام دی تھی جس میں ایران کے دو جرنیل اور پانچ عسکری مشیر جاں بحق ہوئے تھے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، اسرائیل نے یہ حملہ کر کے ایران کی سالمیت کو چیلنج کیا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل نے دہشت گرد اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔
تقریباً دو ہفتے بعد ہفتے اور اتوار کی درمیان رات ایران نے اس حملے کا جواب دیتے ہوئے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے فضائی حملہ کر دیا۔ غاصب اسرائیلی فوج کے ترجمان نے حملے کے کچھ ہی دیر بعد اس کی تصدیق کردی اور امریکی حکام کی جانب سے بھی کہا گیا کہ ایران کی طرف سے 100 ڈرون اور کروز میزائل فائرکیے گئے۔ ایرانی ڈرونز کو اسرائیل تک پہنچنے میں 9 گھنٹے لگنے تھے۔ ویسے تو اسرائیل کی طرف سے فوری طور پر دفاعی نظام متحرک کردیا گیا تھا جس کے ذریعے شام اور اردن پر ڈرونز کو روک دیے گئے لیکن اس سلسلے میں امریکا اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کے دفاع کے لیے کارروائی کی۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ ہم ہر حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں، امریکی صدر کو صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا۔ ادھر، ایران کے حملے کے بعد عراق، لبنان اور اردن نے اپنی فضائی حدود بند کردیں۔
اس صورتحال میں تہران نے ضرورت پڑنے پر’اضافی دفاعی اقدامات‘ کی دھمکی دی ہے جبکہ حملوں کے بعد خطے کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہو گا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر تین سو سے زائد ڈرون اور میزائل داغے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایک ٹیلی ویژن بیان میں کہا کہ زیادہ تر میزائلوں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایرو ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے روکا گیا اور زیادہ تر ڈرون اور میزائلوں کو اسرائیلی فضائی حدود سے باہر مار گرایا گیا۔ فوجی ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایران کی طرف سے آنے والے ڈرونز اور میزائلوں کو گرانا ’ایک بہت اہم تزویراتی کامیابی‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ کچھ میزائل اسرائیل میں گرے، جس سے ایک لڑکی زخمی ہوئی اور ایک فوجی تنصیب کو معمولی نقصان پہنچا۔
ادھر، ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے خدشے کے پیش نظر امریکا نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں جدید میزائل دفاعی نظام سے لیس 2 جنگی بحری بیڑے تعینات کر دیے تھے اور ان بیڑوں کی تعیناتی سے قبل ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز میں اسرائیلی کمپنی کے پرتگالی جہاز پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس جہاز پر سوا ر20 رکنی عملے کا تعلق فلپائن سے ہے جبکہ جہاز ایم ایس سی ایریز اسرائیلی کی کمپنی کی ملکیت ہے۔ جہاز پر قبضے کے بعد اسرائیلی فوج کے ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ ایران نے کشیدگی میں ا ضافہ کیا تو نتائج بھگتے گا۔ اسرائیل ہائی الرٹ ہے، ایران کی مزید جارحیت سے تحفظ کے لیے اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں ردعمل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ امریکا نے اسرائیلی جہاز پر قبضے پر ردعمل میں کہا ہے کہ ایران قبضہ کیے ہوئے جہاز کو فوری طور پر چھوڑ دے۔ سویلین جہاز کو قبضے میں لینا عالمی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
7 اکتوبر کو غزہ پر غاصب اسرائیل کی طرف سے شروع ہونے والی جارحیت سے لے کر اب تک امریکا کی طرف سے جتنے بھی بیانات جاری ہوئے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرابی کی جڑ امریکا ہے جو اسرائیل کو صرف اسلحہ اور گولا بارود ہی مہیا نہیں کرتا بلکہ اسے ہلہ شیری بھی دیتا ہے کہ وہ جس ملک کے خلاف جو کارروائی چاہے کرے۔ عالمی قوانین کی دُہائی دینے سے پہلے امریکا کو یہ دیکھ لینا چاہیے تھا کہ اس سلسلے کا آغاز کس نے کیا۔ ایران نے اسرائیل پر حملہ کرنے میں پہل نہیں کی بلکہ اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنا کر جنگ کا اعلان کیا۔ اس صورتحال میں ایران پر لازم ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے اسرائیل کو جواب ضرور دے۔
اس پوری صورتحال میں سب سے منفی کردار وہ مسلم ممالک ادا کررہے ہیں جو اسرائیل کی غزہ میں جاری جارحیت پر کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ ان میں سے ہی کچھ ممالک نے اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکا کی ڈیفنس سسٹمز اپنے ہاں نصب کررکھے ہیں۔ اسرائیل دہشت گردی کی جو کارروائیاں کررہا ہے ان کی وجہ سے عالمی مستقبل خطرے میں پڑا ہوا ہے اور بین الاقوامی سطح پر تیسری جنگ عظیم کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔ اس سب کی ذمہ داری اسرائیل، امریکا اور برطانیہ ممالک پر ہے۔ اگر اس موقع پر بھی عالمی برادری نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو نہ روکا اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے تو جنگ کا دائرہ صرف مشرقِ وسطیٰ تک ہی نہیں رہے گا بلکہ دنیا کے دیگر خطے بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے جس سے عالمی امن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔