محمد نوید مرزا۔۔۔۔۔۔
یہ شاید 1992ء کی بات ھے،جب معروف شاعر،ناشر اور مدیر دستاویز جناب اشرف سلیم روالپنڈی سے ٹرانسفر ھو کر لاھور تشریف لائے۔میرا ان سے پہلا تعارف معروف شاعر جناب یونس نشاط کے ذریعے ھوا۔ھم تینوں کا تعلق فوج اور دیگر فورسز کے حسابات دیکھنے والے سول ادارے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سے تھا۔یونس نشاط محکمے سے ریٹائر ھو چکے ھیں اور اشرف سلیم کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ھو کر پچھلے برس وفات پا چکے ھیں۔اشرف سلیم سے چند ملاقاتوں کے بعد میں ان سے قریب ھو گیا۔ھم اکثر تقریبات میں اکٹھے ھی شریک ھوتے تھے۔ایک دن وہ مجھے کہنے لگے،نوید آج میں تمھاری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کراؤں گا ،جو ایک مدت سے بے لوث ھو کر ادب کی خدمت پر معمور ھیں۔میں ان کے ساتھ لاھور کے علاقے گلبرک پہنچا ،جہاں پہلی بار میری ملاقات آپا صدیقہ بیگم سے ھوئی۔پہلی ھی ملاقات میں مجھے احساس ھوا کہ وہ ایک باوقار ،صاف گو اور خوش مزاج خاتون ھیں۔اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔صدیقہ بیگم ایک شاندار،نفیس اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ان کے گھر آنے والا مہمان چائے پانی کے بغیر واپس نہیں جاتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔وہ ایک وسیع المطالعہ خاتون تھیں۔خاص طور پر وہ انگریزی بہت شوق سے پڑھتی تھیں۔صدیقہ بیگم کے والد چوھدری برکت علی نے ماھنامہ ،ادب لطیف جاری کیا۔لیکن زندگی نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی اور وہ صرف 52 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔اس وقت صدیقہ بیگم جوان تھیں۔لیکن انھوں نے والد کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور ادب لطیف کی ادارات سنبھال لی۔ان کے ساتھ وقتآ فوقتآ مدیر آتے جاتے رھے۔جن میں میرزا ادیب،احمد ندیم قاسمی،ناصر زیدی،ذکاء الرحمن،ساحر لدھیانوی،مسعود اشعر،اظہر جاوید،ظفر معین بلے اور راقم الحروف حروف محمد نوید مرزا کے نام شامل ھیں۔ادب لطیف کی بحیثیت مدیر اعلی ان کی خدمات کا اعتراف ایک دنیا نے کیا ھے۔ڈاکٹر اسد اریںب اپنے لاھور میں قیام کے بارے میں لکھتے ھیں،،ھم نے ان سے سات آٹھ برسوں میں کئی ملاقاتیں کیں۔صدیقہ بیگم ایک شاندار خاتون ھیں۔ادب لطیف کو تاریخ میں اہمیت دلانے میں جس شخصیت کا بہت زیادہ کردار ھے وہ ادب لطیف کے بانی چوھدری برکت علی کی دختر نیک صدیقہ بیگم ھیں،،
صدیقہ بیگم خود ایک ادیبہ یا شاعرہ نہیں تھیں،لیکن ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔وہ ادب لطیف کا اداریہ خود لکھیں یا مدیر کے لکھے ھوئے کو پڑھتیں اور اس میں مناسب ترمیم بھی کراتی تھیں۔انھوں نے ادب لطیف کے لئے چند تحریریں بھی لکھیں۔1994ء میں جب میں پونے دو سال کے لئے ادب لطیف کا مدیر بنا تو مجھ پر ان کی شخصیت کے کئی اور در بھی وا ھوئے۔صدیقہ بیگم جو بظاھر سخت طبعیت لگتی تھیں،دراصل کسی اخروٹ جیسی تھیں،جو باھر سے سخت اور اندر سے نرم ھوتا ھے۔ادب لطیف کی ادارت کے دوران تین چار عیدیں بھی آئیں اور ھر بار آپا نے مجھے اور پرچے کی پیسٹنگ کرنے والے بھائی کو تنخواہ کے علاؤہ سوٹ اور دیگر تحائف دئیے۔اس سے ان کی فراخ دلی کا اندازہ کیا جا سکتا ھے۔ادب لطیف کی ادارت تو میرے لئے ویسے بھی اعزاز تھا اور یہ بات ھمیشہ میرے لئے باعث فخر رھے گا کہ میں اردو کے اس عظیم جریدے کا مدیر رھا ھوں۔میری ادارت میں دو خاص نمبر بھی شائع ھوئے۔جن میں سے ایک خاص شمارے کا دوسرا ایڈیشن اور غزل و نظم نمبر شامل ھیں۔1995ء میں میری محکمانہ ٹرانسفر ھو گئی اور مجھے پشاور جانا پڑا۔یوں میرا ادب لطیف سے رشتہ ٹوٹ گیا لیکن آپا صدیقہ بیگم کی شفقتیں جاری رھیں اور جب میں لاھور آیا تو انھوں نے مجھے میرے انکار کے باوجود ایک ماہ کی تنخواہ دے دی۔جو مجھے رکھنی پڑی۔آپا کہنے لگیں یہ پیسے تمھارے بنتے ھیں۔صدیقہ بیگم کی شفقت ایک ماں جیسی تھی۔وہ بڑوں کا احترام کرتی تھیں اور چھوٹوں سے پیار کرتی تھیں۔ایک بار جب وہ دیار غیر جا رھی تھیں تو انھوں نے چوکیدار کو کہا کہ نوید ھفتے یں دو دن ادب لطیف کی ڈاک کے سلسلے میں آیا کرے گا اور یہاں بیٹھ کر ادارتی کام کرے گا۔آپ ان کا میری غیر موجودگی میں خیال رکھیں۔یوں ان کے دیار غیر میں جانے کے باوجود رسالے کا کام چلتا رھا۔ انھیں مجھ پر ھمیشہ اعتماد رھا۔صدیقہ بیگم کا سوانحی خاکہ سابق مدیر ادب لطیف جناب ظفر معین بلے نے لکھا ھے،جس کے مطابق صدیقہ بیگم 1 جنوری 1938ء کو پیدا ھوئیں اور 15 دسمبر 2019ء کو لاھور وفات پائی۔یوں انھوں نے قریب قریب 81 برس عمر پائی۔انھوں نے مدرسہ البنات نزد چوبرجی سے میٹرک اور اور اسلامیہ۔ کالج کوپر روڈ سے انٹرمیڈیٹ کیا۔1958ء میں ان کی بیس برس کی عمر میں جاوید طارق خان سے شادی ھوئی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں دیں۔صدیقہ بیگم کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی ،جب ان کے داماد انیس احمد کا اچانک انتقال ھوا گیا تو وہ شدید صدمے سے دوبار ھوگئیں،بیٹی کا دکھ ان سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔انیس معروف افسانہ نگار اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ کے صاحبزادے تھے۔
صدیقہ بیگم کی وفات پر دنیائے ادب سوگوار رھی۔کالم لکھے گئے اور کئی۔ ھفتے تعزیتی پیغامات آتے رھے۔معروف افسانہ نگار مسعود اشعر نے لکھا،،صدیقہ برکت علی کا 84 سال کا ادبی ورثہ چھوڑ کر چلی گئیں۔وہ ہنستا مسکراتا چہرہ جو نیر علی دادا کی ماہانہ بیٹھک کی زینت ھوتا ھے،اس دنیا سے ھی منہ موڑ گیا۔نہایت ھی نفیس اور خوش مزاج خاتون ،جب تک گلبرگ میں رھیں،ان کے گھر پر بھی ادبی محفلیں جمتی رھیں۔جب شہر سے دور چلی گئی تو دوسری ادبی محفل میں نظر آجاتی تھیں،،
صدیقہ بیگم ایک باوقار ،باھمت اور پر عزم خاتون تھیں،جنھوں نے ادب لطیف کے ذریعے ادب اور ادبی دنیا کی خدمت کی۔ادب کے لئے ان کی کاوشوں کو ہمیشہ سراھا جائے گا۔ان کی چوتھی برسی پر ان کی جو باتیں یاد آئیں دوستوں کے سامنے پیش کر دیں ،اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائیں،آمین
آخر میں ان کے لئے جناب غلام شبیر رانا کی چند تعزیتی سطریں پیش خدمت ھیں،،صدیقہ بیگم کے انتقال کی خبر ادبی دنیا کے لئے ایک ایسا ملال انگیز سانحہ ھے جس نے اردو داں اور اردو خواں طبقے کو رنج والم میں مبتلا کر دیا ھے۔زندگی بھر مضبوط س مستحکم زندگی اور قابل قدر نوعیت کے جذباتی ،قلبی و روحانی رجحانات کی ترجمانی کی مساعی کو تقویت دینے والی شخصیت کی دائمی مفارقت قارئین ادب کے گریہ و بکا کا جواز ھے،،
صدیقہ بیگم ایک مضبوط اعصاب کی خاتون تھیں،جنھوں نے بہت سے مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن رشتوں کا تقدس بحال رکھا ایسی خواتین بہت کم ھوتی ھیں۔اللہ پاک درجات بلند فرمائیں،آمین
آپا صدیقہ بیگم کا سارا خاندان شعر و ادب اور اشاعت کتب سے وابستہ رھا ھے۔ظفر چوھدری اور خالد چوھدری صاحب سے میرے قریبی مراسم رھے ھیں۔خاص طور پر خالد چوھدری جو چوھدری اکیڈمی کے ذریعے سینکڑوں کتب شائع کر چکے ھیں۔انھیں بابائے اردو بازار کہا جاتا ھے۔وہ ایک باغ و بہار اور زندہ دل شخصیت ھیں۔عمر کے اس حصے میں بھی وہ اپنے ادارے کی بہتری اور نشر و اشاعت کے لئے کوشاں و مصروف ھیں۔اللہ تعالیٰ ان کو اپنی امان میں رکھیں،آمین
دعا گو۔۔۔ محمد نوید مرزا