واشنگٹن : آئی ایم ایف اورعالمی بینک کاسالانہ اجلاس آج سے واشنگٹن میں شروع ہوگا. جس میں وزیرخزانہ کی سربراہی میں پاکستانی وفد آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پروگرام کیلئے درخواست کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف اورعالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں کاآغازآج سےواشنگٹن میں ہوگا، وزیرخزانہ کی سربراہی میں پاکستانی وفد اجلاسوں میں شرکت کرے گا، وزارتی اور اہم اجلاس 17 سے 19اپریل کےدوران شیڈول ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی ایم ڈی آئی ایم ایف اورصدرورلڈ بینک سے ملاقاتیں ہوں گی، اس کے علاوہ وزیرخزانہ کی دیگر مالیاتی اداروں اورامریکی حکام سے بھی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پروگرام کیلئے درخواست کی جائے گی، نئےقرض پروگرام پر مذاکرات آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان میں ہوں گے۔ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف کےساتھ نئےقرض پروگرام کے لیےابتدائی پلان پرکام ہورہا ہے، نئےقرض پروگرام کےحجم اور دورانیہ کوتاحال حتمی شکل نہیں دی گئی، نیا قرض پروگرام 3 سال یا اس سے زائد عرصے کیلئےاور 6 سے 8 ارب ڈالرز کا ہوسکتا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق ایف بی آرمیں اصلاحات کی جائیں گی،ٹیکس نیٹ بڑھایاجائے گا، 31لاکھ ریٹیلرزکو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئےپلان بنایاگیا .رئیل اسٹیٹ اورزرعی شعبہ سے ٹیکس کی وصولی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ذرائع کا بتانا تھا کہ جو شعبے ٹیکس نیٹ میں نہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، ٹیکس فائلرز کی تعداد اورریونیو میں اضافے کیلئے پلان بنایا گیا. 15 سے 20لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کوٹیکس نیٹ میں لانے پر کام ہورہا ہے۔وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ ٹیکس نیٹ وسیع اورٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھانے پرکام کیا جائے گا اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھانے پرکام ہوگا۔حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت گیس شعبے میں اصلاحات اورسستی توانائی پلان پر کام کررہی ہے. توانائی شعبے میں سرمایہ کاری، مقامی وسائل پرانحصارحکومت کی ترجیح ہے. تاہم درآمد پر انحصارکم اورمقامی وسائل سےپیداوار بڑھانا ترجیح ہے۔ذرائع کے مطابق مقامی آئل ریفائنریزسےپیداوار بڑھانےکےپلان پرکام ہورہا ہے. مقامی ریفائنریز کی اپ گریڈیشن سےساڑھے 6 ارب ڈالرزسرمایہ کاری متوقع ہے۔اسی طرح بجلی کی تقسیم اورترسیل کانظام بہتر بنایاجائے گا اور توانائی شعبےکےسرکلرڈیٹ میں اضافہ نہیں ہونےدیا جائے گا ساتھ ہی بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا اور خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔