جعفرآباد کا ضلعی ہیڈ کوارٹرڈیرہ اللہ یارمکمل پانی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ یہاں گلیاں ، بازار پانچ سے چھ فٹ پانی میں ڈوب گئے جبکہ ہزاروں مکان اوردکانیں منہدم ہوچکی ہیں ۔ مکان کی چھت گرنے کے واقعہ میں دو افراد کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ہے ۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ۔ سیلاب نے درجنوں دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ادھر نصیر آباد کی سم کینال میں شگاف پڑنے اور جیکب آباد سے آنے والے سیلابی ریلے سے گھروں کی چھتوں پرمحصور ہزاروں افراد ریسکیو آپریشن اورحکومتی امداد کے منتظرہیں ۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے علاقہ خالی کرنے کے لیے صرف گیارہ گھنٹے کا نوٹس دیا تھا ۔ اتنے کم وقت میں چارلاکھ کی مقامی آبادی کی منتقلی ممکن نہیں تھی ۔ جعفرآباد کے مختلف علاقوں میں تین لاکھ سے زائد سندھ کے متاثرین سیلاب نے بھی پناہ لے رکھی تھی اور اب یہ متاثرین بھی اس نئے سیلابی ریلے میں پھنس گئے ہیں ۔ سیلاب سے قبل ڈیرھ لاکھ سے زائد افراد اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر گئے ۔ شہرمیں مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے ۔ ریلوے ٹریک زیر آب آنے سے ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہے جبکہ سندھ اوربلوچستان کا زمینی رابطہ منقطع ہے ۔ جعفرآباد کے علاقوں مراد علی ، مانجھی پور، دولت پور، چتن پٹی ، گوٹھ سلیم زیر آب آنے کے بعد سینکڑوں افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔لوگوں کی اکثریت ڈیرہ مراد جمالی ، اوستہ محمد اور دیگر بالائی علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ سیلابی ریلے سے سینکڑوں جانور مرنے سے تعفن پھیلا ہوا ہے ۔ سیلاب سے روجھان جمالی ، نصیرآباد اورگردونواح کوبھی شدید خطرہ لاحق ہے ۔