مرد کہ بیرون آید کی اسکبند
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کانگریس کی گھورتی نظریں اور مسلم کانفرنس کی امید بھری نظریں ریاست جموں و کشمیر پر لگ گئی تھیں تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق 84 ہزار مربع میل کی جنت نظیر اور وسائل سے مالامال ریاست اپنی 80 فیصد مسلمانوں کی آبادی اور جغرافیائی حدود اربعہ کے اعتبار سے پاکستان کا حصہ سمجھی جارہی تھی لیکن کانگریس کو جس نے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا جموں و کشمیر کا پاکستان کا حصہ ہونا گوارا نہیں تھا چنانچہ سازشیں شروع ہو گئی تھیں کانگریس کے اس وقت کے صدر اچاریہ کی پلانی سرینگر گئے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو تھپنکی دی وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن جو ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے تھے 22 جون 1947ءکو سرینگر گئے مہاراجہ ہری سنگھ کی انہوں نے پیٹھ ٹھونکی ولی خان جنہوں نے پختونستان کا نعرہ لگا رکھا تھا سرینگر گئے تین دن وہاں رہے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے سرگوشیاں کرتے رہے کہ اگر جموں و کشمیر ہندوستان میں شامل ہو جائے اور ہم پختونستان حاصل کر لیں تو مغربی پاکستان کو سینڈوچ کر دیں گے ان سازشوں کا نقطہ عروج ہندوستان کے باپو انجہانی گاندھی کا راولپنڈی مظفرآباد سے یکم اگست 1947ءکا سرینگر کا سفر تھا گاندھی تین دن سرینگر میں رہے نیشنل کانفرنس کے رہنماﺅں کو حوصلہ دیا شیخ عبداللہ کے گھر گئے اور خود چل کر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل میں گئے ہری سنگھ گاندھی کے سامنے ڈھیر ہو گیا کانگریس کے ہمنواءشیخ عبداللہ اور ریاست میں تحریک پاکستان کے علمبردار چودھری غلام عباس دونوں جیل میں نظربند تھے شیخ محمد عبداللہ نے بھدرو واہ جیل سے ستمبر کے شروع میں اپنے ایک ہندو دوست کو خط لکھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کو مشورہ دے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کرے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے جو کشمیر پر بھارت کی فوج کشی کے ساتھ ہی شیخ عبداللہ کے وزیراعظم بنائے جانے کے ساتھ ہی ریاست کے صدر بنائے گئے تھے نے اپنی کتاب ہیرا پرینٹ میں اس خط کا حوالہ دیا ہے ان سازشوں کے طومار میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے 19 جولائی 1947ءکو سرینگر میں ایک قرارداد کے ذریعہ مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر الحاق پاکستان سے کیا جائے ورنہ مسلمان علم جہاد بلند کرینگے جہاد ہوا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا خطہ آزاد ہوا اس تناظر میں 14 اگست 1947ءکو پاکستان کی اسلامی ریاست دنیا کے نقشہ پر ابھری ہندوستان خاص کر پنجاب میں مسلمانوں پر قتل و خون کی قیامت ٹوٹی وہاں پر آہوں اور سسکیوں کے ساتھ پاکستان کے قیام پر مسرت و خوشیوں کا اظہار بھی کیا گیا۔ ریاست جموں و کشمیر میں قیام پاکستان پر غیرمعمولی جوش اور بساط کا مظاہرہ کیا گیا تھا ہر مسلمان کے دل میں امید کی کونپلیں کھل رہی تھیں کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہو گی ریاست کے دو صوبوں کشمیر اور جموں میںاس دن مسلمانوں کے سینے خوشیوں سے پھول رہے تھے۔ صوبہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 98 فیصد ہے صوبہ جموں میں (اس وقت) مسلمانوں کی آبادی 07 فیصد تھی مجموعی طور پر ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد تھی کشمیر خالصتاً ہوں، درگاہوں اور مذہبی اقتدار کا خطہ ہے۔ یہاں پر مسلمانوں نے سبز پرچم اپنے گھروں اور بازاروں پر لہرا کر پاکستان سے وابستگی کا بھرپور اظہار کیا آپس میں خوشیوں کے معانقوں کا سلسلہ چل نکلا تھا مساجد میں شکرانے کے نوافل ادا کئے گئے اور صبح کی نماز کے بعد روایتی انداز میں دامن پھیلا پھیلا کر پاکستان کے قیام پر خوشیوں اور اس کے استحکام کےلئے رقت آمیز دعائیں کی گئیں نوجوانوں نے اپنے انداز میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر مسرت کا اظہار کیا کشمیر پر شیخ عبداللہ کے نیشنل ازم کا پرفریب جادو جو قائداعظم کے 1944ءمیں سرینگر میں دو ماہ کے قیام اور طبقہ زندگی کے لوگوں سے کھل کر ملاقاتوں کے ذریعہ چھٹ رہا تھا آج قیام پاکستان پر اس کے تار پود بکھر گئے تھے کشمیر کا اسلامی تشخص ابھر کر سامنے آگیا تھا جموں مہاراجہ ہری سنگھ کی جنم بھولی تھی اس صوبہ کے شہروں میں ڈوگرہ ہندوﺅں کے تسلط کی چھاپ ہر شعبہ زندگی پر رہتی تھی لیکن پنجاب سے معلق ہونے کے باعث تحریک پاکستان جموں کے صوبہ میں زیادہ جوش و قوت کے ساتھ جاری تھی۔
ملت کا پاسبان ہے محمد علی
ہم اس کے پاسبان ہیں وہ پاسبان ہمارا
کا ترانہ جو تحریک پاکستان میں بڑا مقبول تھا ۔