انسان یا جانور۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے

ویسے جارج آرول نے اپنے ناول ”اینیمل فارم“ میں یہی کچھ بتایا ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح ہی سیاست کرتے ہیں۔ آخر میں منکشف یہی ہوا تھا کہ سو¿ر اور انسان دونوں دو ٹانگوں پر کھڑے تھے اور دیکھنے والا دونوں میں تمیز کرنے سے قاصر تھے۔ مارک ٹون نے اپنی کہانی ”ڈیم ہیومین ریس“ میں انسان کو زیادہ ظالم بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ جانور شکار کر لیتا ہے۔ بلکہ محض شکار کے شوق میں بھی کئی جانور مار دیتا ہے۔اس حوالے سے سیاست دان انسان سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ کہا جاتا ہے محبت اور جنگ میں سب کچھ چلتا ہے۔ میرا خیال ہے اس میں سیاست بھی شامل کر لیں بلکہ جو محبت اور جنگ میں نہیں چلتا سیاست میں وہ بھی چلتا ہے۔
بہرحال آتے ہیں موضوع کی طرف۔ نہ جانے اچانک حکمرانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ تخت لاہور کو کوستے کوستے پنجاب کو صوبوں میں تقسیم کرنے کے در پئے ہوگئے۔ جناب بابر اعوان کدھر چل نکلے انہیں جگر کا مصرع یاد نہیں ”جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ“۔ سرائیکی صوبے کے ساتھ یک بیک اتنی ہمدردی کہ ان کے رہنماﺅں کو بائی پاس کرکے ان کے نمائندہ بن بیٹھے۔ جو سرائیکی رہنما گذشتہ چالیس سال سے تحریک چلا رہے تھے ہکا بکا ان مینڈکوں کی آوازیں سن رہے ہیں‘ آج کل ویسے بھی برسات ہے اور رات بھر مینڈک ٹراتے ہیں اور انہیں دنیا کی کوئی طاقت چپ نہیں کرا سکتی۔ صوبوں کی تقسیم کا عمل پنجاب سے باہر نکلا تو کچھ اور ہی کھلا۔ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ ان کی لاش سے گزر کر ہی کوئی سندھ کو تقسیم کر سکتا ہے۔ اسلم رئیسانی نے کہا کہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم بہت نقصان دہ ہوگی۔ پختونخواہ والے بھی اسے کیسے تسلیم کریں گے۔ سارا جھگڑا ہی پنجاب کے کمبل کا ہے۔
راجہ ریاض صاحب کو لاہور کی سڑکوں سے ”پھُٹّی“ کی بو آنے لگی۔ گویا وہ مجیب الرحمن کی زبان بولنے لگے جسے پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی۔ اس وقت مخاطب بھٹو صاحب تھے اور اب مخاطب نواز شریف ہیں۔ پٹ سن کی بُو نے بنگلہ دیش بنا دیا‘ خدا نہ کرے کہ ”پھُٹّی“کی بو کوئی نیا چاند چڑھائے۔ پنجاب کی تقسیم سے کون اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا علاقہ نوابوں‘ جاگیرداروں‘ پیروں اور سرداروں پر مشتمل ہے جنہوں نے حکومتوں میں رہنے کے باوجود کبھی یہاں ترقی کے کام نہیں ہونے دئیے۔ تعلیم کو ان سے دور رکھا۔ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ نیا صوبہ بننے سے انہی حکمرانوں کی آل اولاد ان پر ڈائریکٹر حکومت کرے گی۔ وزیر اعظم صاحب کی لسانی گفتگو پر خود پیپلز پارٹی معترض ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بن بھی سکتے ہیں جس کے لیے کمیشن بنایا جا سکتا ہے مگر اس مقصد کے لیے یہ وقت انتہائی غلط ہے اس وقت کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ بلوچستان کا انتشار اپنی انتہاﺅں پر ہے اور امریکہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے در پے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پنجاب کی تقسیم کا ایجنڈا بھی اسی کا دیا ہوا ہے کہ اسے جنوبی پنجاب میں اپنے خلاف نفرت نظر آتی ہے۔ حکومت کو اپنی کرپشن پر بند باندھنا ‘گرانی کو کنٹرول کرنا‘ بجلی‘ گیس اور پانی کے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ صوبہ پنجاب خود ہی پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ لوگ اپنا حق مانگتے ہیں۔ خیر اب تو صرف زندگی مانگتے ہیں۔ لیاری کے لوگ چیخ رہے تھے ”کچھ نہیں چاہیے صرف زندہ رہنے دیا جائے“۔
انتہائی خوش آئند بات ہے کہ شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے اور یہی مسئلے کا حل ہے۔ ان کی محرومیوں کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ ان کی اشک شوئی کرنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے۔ ایسے اقدام سے منافرت پھیلانے والے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ میں نے اپنے کالم کا آغاز جانوروں سے کیوں کیا اور پھر ان کا موازنہ انسان سے کیوںکیا؟ لاریب انسان عقل سلیم رکھتا ہے‘ زمین پر خدا کا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہے۔ مذہب نے اس کی عقلِ رسا کو فلک کا ہمسر کر دیا اور اسے خدا تک پہنچنے کا راستہ مہیا کیا مگر مذہب نے ہی بتایا کہ جب یہ انسان گرتا ہے تو جانوروں سے بدتر ہو جاتا ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ انسان یا جانور۔

ای پیپر دی نیشن