کشور ِحسین شادباد

وقت کی گردش یوم آزادی کو پلٹا کر واپس عشرہ¿ لیلة القدر میں اس مقام پر لے آئی ہے جہاں سے پاکستان نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ آغاز پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کے نعروں کی گونج میں، ایک معجزاتی آغاز تھا۔ نزول قرآن کی رات اس زمین کے نقشے پرنزول پاکستان ہوا تھا۔ ہجرتوں، شہادتوں، لٹے پٹے قافلوں کاسفر آنکھوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا خواب لیے بابائے قوم کی مسلسل تقاریر اسلامی نظام زندگی اور شریعت کے احیاءکے وعدوں سے پُر تھیں۔ خون سے عبارت آزادی میں یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کا ولولہ نو زائیدہ مملکت کا اصل سرمایہ تھا۔ پاکستان کے مقصد وجودپر جھوٹ گھڑنے والوں، پیٹ اور نفس پروری کی خاطر دو قومی نظریہ جھٹلانے والوں کیلئے تاریخ کا یہ سفر آج پلٹ کر جس منزل پر دوبارہ آ ٹھہرا ہے یہ ایک عظیم نشانی ہے۔ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے! لیلة القدر کے ہمراہ 14اگست....! ذرا یاد کیجئے مشرک عرب، اولاد اسماعیل علیہ السلام نے قمری سالوں کو شمسی کے مطابق چلانے کیلئے نسی کا جو قاعدہ ایجاد کر رکھا تھا اس سے حج اصل وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہوتا رہا۔
نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے آخری حج کے موقع پر حج کا وقت گردش کرتا ہوا عین اسی تاریخ پر لوٹ آیا جو قدرتی حساب سے اسکی اصل تاریخ تھی۔ اسکے بعد سب کچھ ہی تو بدل گیا۔ پُرشکوہ آخری حج سے آگے کی دنیااسلام کی دنیا تھی۔ اگر ہم جاننا چاہیں تو اس میں بھی ایک نشانی ہے ہمارے لیے کہ پاکستان لوٹ کر اپنے اصل یوم آزادی پر آ گیا۔ آپ کو آپ کے وعدے یاد دلانے کیلئے کہ پاکستان کو دوبارہ آزاد کروائیے۔ ایک مبارک خطہ نامسعود ہاتھوں میں ہے۔ پھر انکے بعد وہ ناخلف لوگ انکے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی، (مریم۔59) نزول قرآن کی رات پیدا ہونے والے ملک کی باگیں ان لاعلم ان پڑھ، قرآن سے نابلد، اپنی تاریخ سے بے بہرہ ہاتھوں میں ہے جو ملک کا جغرافیہ تباہ کر دینے کے در پے ہیں۔ پاکستان آج میر عرب صلی اللہ علیہ وسلم کی باب ختن کی ان پیشین گوئیوںکے دور میں کھڑا ہے لیلة القدر پر، کہ جہاں دو لشکر اس کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ عیسیٰؑ بن مریم کا لشکر اور غزوہ¿ ہند کا لشکر۔ دنیا کی تاریخ بدلنے کو ہے۔ ظلم پر مبنی اس عالمی استحصالی غنڈہ گرد استبدادی نظام سے بالآخر انسانیت کو نجات ملنی ہے۔ بی بی سی کا نمائندہ شام کے حوالے سے حیران و ہراساں رپورٹ دیتا ہے کہ وہاں بشار الاسد کےخلاف برسر پیکار لشکروں کے جھنڈوں پر امام مہدی کا نام اور زبانوں پر ان کے استقبال اور آمد کے تذکرے ہیں! خراسان (جس کےخلاف ہم امریکہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مغربی سرحد کے آر پار برسر پیکار ہیں!) کے کالے جھنڈے پوری دنیا کے جاہل دانشوروں (وحی الٰہی سے بے بہرہ) کیلئے ایک مسئلہ لانیحل ہیں۔ یہ وہ پُرعزم سیسہ پلائی ہوئی دیوار (بنیان، مرصوص) ہے جس پر کوئی اسلحہ، بارود اثر نہیں کرتا۔ ناقابل شکست، اس مرحلے پر پاکستان کو کڑے فیصلے کرنے میں کیا راز ہے کہ آسام میں پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ بمبئی میں پولیس اور مسلمانوں کے تصادم کے بعد پاکستانی پرچم لہراتا نظر آیا۔ کشمیر میں پہلے ہی یہ پرچم بھارت کے سینے پر مونگ دلتا ہے۔ ہمیں اپنے احوال کو درست کرنا ہے کیونکہ آپ کا پرچم ستارہ و ہلال کہاں ہے؟ ہلال و صلیب کے ناپاک اشتراک کے ہاتھوں یہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے لہرانے کی بجائے اب ’شہدا‘ کے نام پر قبرستانوں میں گاڑ دیا گیا ہے۔ در زیدہ، سرجھکائے شرمندہ شرمندہ! پاک سر زمین شاد باد.... امریکی بوٹوں، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن، سلالہ، نیٹو سپلائی سے پامال، دھواں دھواں، ناپاک کر دی گئی۔ کشور حسین کے منہ پر کف آلود امریکہ کی گھر کیوں اور غلامی کی کلونس چھا گئی۔ شاد باد رہے تو کیسے.... لال مسجد کے بعد قرآن، صحاح ستہ کے اوراق اور پاکباز بیٹیوں کی کٹی انگلیاں اور ٹوٹی چوڑیاں گندے نالے میں بہہ کر ارض پاکستان کو داغدار کر چکیں۔ قوت اخوت عوام پارہ پارہ کر دی گئی۔ تقسیم در تقسیم کرسیوں کی لوٹ کھسوٹ میں ترقی و کمال کی علامت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی صنعت و زراعت، ادارے تباہ ہو گئے۔ صرف ایک صنعت ترقی و کمال پر ایستادہ ہے۔ عریانی، بے حیائی، فحاشی کی مسلط کردہ صنعت جو طوفان بدتمیزی کی وہ گرد اڑا رہی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ ترجمان ماضی شان حال....؟ وہ ماضی جو ریاست مدینہ سے جڑا، محمد بن قاسم سے ہوتا ہوا‘ اقبال کی قرآن و حدیث سے کشید شاعری سے عبارت تھا مگر....!
ترا نقش پا تھا جو رہنما تو غبار راہ تھی کہکشاں
جسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
ماضی سے کٹ کر تاریخ کو بھول کر شان حال کو گرہن لگ گیا۔ جان استقبال امریکی شکنجے میں ہم پھنسا بیٹھے ہیں۔ اس بھنور سے نکلیں تو سایہ خدائے ذوالجلال میسر آئے۔ فاتح خیبر نبی کے امتی خیبر کے یہودیوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے فرنٹ لائن اتحادی بن کر اور فاتح خیبر ایجنسی بنے تاکہ نیٹو کے یہود و نصاریٰ کے لشکر کمزور نہ پڑ جائیں۔ (یہ ایجنسی نیٹو سپلائز کے راستے کی رکاوٹ تھی!) اب ہم شمالی وزیرستان میں امریکہ کے گلے کی اگلی پھانس نکالنے کو کمربستہ ہیں جب ہم جیسے دیوانے نتائج و عواقب کی پروا کیے بغیر شور مچاتے ہیں تو فورای صفائی پیش ہو گئی ’امریکی بوٹ قدم نہیں رکھیں گے‘۔ خراسان کے لشکروں سے ہم خود (امریکیوں کی خاطر) نمٹیں گے۔
کہانی عین وہی ہے جس کا اندیشہ ہم نے ظاہر کیا تھا۔ ناک کو صرف پیچھے سے ہاتھ گھما کر پکڑا جا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی جگہ ہمارے F-16 اور گن شپ ہیلی کاپٹر مسلمانوں، حقانیوں کے خون سے ہاتھ رنگین کرینگے۔ عید آ رہی ہے حفصہ کی بیٹیوں کے بعد اب حقانیوں کی بیٹیوں کو مہندی لگے گی! آپ پاکستان میں تحریر اسکوائر کی اینٹیں رکھ رہے ہیں سو رکھیں۔ امریکی ڈالر آنکھوں پر ایسی ہی پٹیاں باندھ دیا کرتے ہیں، مصر اس پر گواہ ہے۔ ملک و ملت کی بقا و استحکام کے تقاضوں سے صرف نظر کرکے آقاﺅں کے اشاروں پر مسلم زمین پامال کرنے والوں کیلئے آج کے مصر اور ترکی میں بہت سے حوالے قوت کے مراکز کیلئے نمونہ ہیں۔ حقانی گروپ (جس سے پاکستان کو سرے سے کوئی خطرہ اس وقت نہیں ہے) سے امریکہ 48+ ممالک نہ نمٹ سکے۔ آپ نمٹیں گے؟ امریکہ الیکشن مہم کی خاطر دونوں طرف خون مسلم بہانے کے در پے ہے۔ آپ غزوہ ہند کی طرف توجہ فرمائیے۔ لشکر خراسان سے بھڑنا اللہ کے غضب کو للکارنے کے مترادف ہیں۔ واللہ ہم اسکے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سوات آپریشن شروع کرنے سے پہلے جھوٹی وڈیو سوات سے میڈیا نے طوفان کھڑا کیا عوام کو گنگ کر دیا۔ اب یکایک شمالی وزیرستان بارے خبریں جاری کی جا رہی ہیں۔ یہ تاثر دینے کیلئے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ بھرے رمضان میں نجات کے عشرے میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ تمہارا رب العالمین کے بارے میں گمان کیا ہے؟ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ اللہ نادان حکمرانوں کی کرتوتوں کے نتائج (Fall Out) سے ہمیں محفوظ رکھے (آمین) ہم اظہار برات کرتے ہیں۔ یوم آزادی کے قرب و جوار میں دارالعلوم کراچی پر چھاپہ۔ یہ مادر پدر آزادی خدا، رسول سے آزادی کا شاخسانہ ہے جو ان پر ڈالروں کی تازہ وصولی کے نتیجے میں نشہ بن کر چھائی ہوئی ہے۔ یعنی ہم جنس پرستی پر شتر بے مہارنجی سکول میں مباحثے کے اہتمام پر تو کوئی چھاپہ نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں میں قتل ہو جائیں تو وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر پولیس ’مادر علمی‘ کا تقدس پامال نہیں کرتی۔ تمہارے مذاق، دل لگی اور چیر چھاڑ کا نشانہ بننے کو مساجد اور ذی شان مدارس ہی رہ گئے ہیں؟ ہوش کے ناخن لیجئے۔ ا
دھر بالآخر برما کا نوٹس او آئی سی، ترکی کی جانب سے لیا جانا خوش آئند ہے تاہم مسلم دنیا پر یہ قرض ہے کہ یہودیوں کے فلسطین اور ہندوﺅں کے کشمیر پر قبضے کی مانند، مسلم اراکان پر بدھوں کی یلغار پر فیصلہ کن اقدام کی بات کی جائے۔ برما نے مار مار کر تین چوتھائی مسلم آبادی کو دنیا میں تتر بتر کیا ہے وہ واپس لائے جائیں۔ ضبط شدہ جائیدادیں وا گزار کرکے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح جنگی بنیادوں پر مسلم اراکان کی آزاد، خود مختار ریاست بنائی جائے تاکہ تیس ہزار مسلمانوں کا خون رائیگاں نہ جائے۔ برمی حکومت، جرنیلوں اور بدھوں کے انسانیت سوز مظالم کا حساب لیا جائے۔ اس کیلئے موثر آواز اٹھانا پاکستان پر بھی قرض ہے۔ ادا کیجئے۔

ای پیپر دی نیشن