ہندو برصغیر کی تقسیم کو گﺅ ماتا کی تقسیم تصور کرتا ہے اور ان کے دھرم میں گﺅ ماتا کا ذبح کرنا ایک پاپ (گناہ) تصور کیا جاتا ہے۔ تحریک سنگھٹن کے سرگرم اور انتہا پسند رہنما لالہ ہر دیال نے اس تحریک کے ذریعے نہ صرف ہندوستان میں مقیم غیر اقوام کو ہندو بنانے تک اکتفا کیا بلکہ اس نے افغانستان کو بھی ہندو ازم کے دائرے میں شامل کرنا بہت ضروری تصور کیا تھا۔ لالہ ہر دیال کے اس پروگرام اور منشور کو ہندوستان میں اس کے موجودہ پیروکاروں نے فراموش نہیں کیا جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو ہندوﺅں کے سینو ں پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ مسلمانان ہند کو ہندو کے پنجہ استبداد سے چھٹکارا مل گیا تھا۔ ہماری نئی نسل کو چونکہ ہندو سے پالا نہیں پڑا لہٰذا وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہندو کیا ہے؟ یہ وہ برخود غلط قوم جو انتہائی مکار اور عیار ہے جس کا ظاہر اور باطن کا تعین کرنا مشکل ہے۔ ہیرا پھیری فریب کاری اور دھوکہ دہی میں جواب نہیں رکھتے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے وہ پاکستانی بزرگ جنہوں نے انگریزی دور دیکھا ہے۔ ہندو کی چیرہ دستیوں اور مظالم کو بچشم خود دیکھا ہے، متحدہ ہندوستان کی تقسیم کو غلط تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنی نئی نسل کی ہندو ذہنیت کے باب میں کیا تربیت کرتے ہوں گے۔ تحریک پاکستان جیسے جیسے اپنے مراحل طے کر رہی تھی، مسٹر مہاتما گاندھی اتنے ہی غمزدہ اور پریشان رہتے تھے جب پاکستان کا ریزولیشن پاس ہوا تو مسٹر گاندھی کے تن بدن میں آگ لگ گئی چنانچہ انہوں نے 17اپریل 1940ءکو اپنے بیان میں کہا.... ”میں پوری جرا¿ت و جسارت کے ساتھ اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ مسٹر جناح اور ان کے ہم خیال حضرات اپنی اس روش سے اسلام کی کوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے بلکہ وہ اس پیغام کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں جو لفظ اسلام کے اندر پوشیدہ ہے مجھے یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آج کل مسلم لیگ کی طرف سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میرے دل پر سخت ٹھیس لگ رہی ہے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کروں گا‘ اگر میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اس دروغ گوئی سے متنبہ نہ کردوں جس کا اس نازک وقت میں ان میں پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔“ پنڈت نندکمار شرما نے اپنی کتاب ”ویر کیشیری شواجی“ میں تحریر کیا ہے راجہ جے سنگھ کے نام ایک خط میں مسلمانان ہند کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا تھا۔ ”میری تلوار مسلمانوں کے خون کے پیاسی ہے، افسوس صد افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور ہی مہم کےلئے نکالنی پڑی اسے مسلمانوں کے سر پر بجلی بن کر گرنا چاہئے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی انہیں انصاف کرنا آتا ہے۔ میری بادلوں جیسی گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سارے مسلمان اس سیلاب خون میں بہہ جائیںگے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔“ شیوا جی کے پیروکاروں نے اور مسٹر گاندھی کے ”امن آشتی“ کے علمبرداروں نے کئی مرتبہ پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کیلئے بھرپور وار کئے۔ پہلاوار ستمبر 1965ءمیں اور دوسرا بھرپور وار دسمبر 1971ءمیں کیا اس کے باوجود ہندو ذہنیت‘ تعصب‘ ظلم و ستم‘ چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں کی سمجھ نہ آئے تو یہ خود فریبی ہے اور اس کا علاج ناممکن ہے۔ دسمبر 1971ءکی جنگ میں ہندو افواج نے جو ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں۔ ہمیں ان واقعات کو پڑھنے کے بعد ہندوﺅں کے ظلم و ستم مجرمانہ ذہنوں اور تعصب کا خوفناک احساس ہوتا ہے۔ آج تک ہندو کے تعصب اور مسلمان دشمنی میں کسی طور پر فرق نہیں آیا اور ہندو اس تاک میں ہے کہ جب موقع میسر آئے پاکستان کو ختم کر دیا جائے۔14 اگست 1947ءبروز جمعتہ المبارک جب پاکستان بفضل تعالیٰ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے ابھرا تو مسلمان جب آزادی کے حصول کے بعد پہلی عید منا رہے تھے تو مشرقی پنجاب اور ایسی ریاستوں نابھہ‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ اور فرید کوٹ سے مسلمانوں کے منظم اور وسیع پیمانے پر قتل عام کی خبریں آنی شروع ہو گئیں۔ اس قتل و غارت گری میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عورتوں کو اغوا کر لیا گیا۔ عصمت دری کے واقعات عام ہونے لگے بعض شہروں میں مردوں کو ختم کرکے نوجوان مسلمان عورتوں کے برہنہ جلوس نکالے گئے۔ چند ہی ہفتوں کے اندر تقریباً 5 لاکھ مسلمان شہید کر دئیے گئے اس کے بعد قتل و غارت گری کی اس آگ کا رخ دہلی کی طرف پھرا اور ہندوستان کے دارالسلطنت میں پورا ستمبر کا مہینہ اس قسم کے قتل عام میں گزرا جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی۔
تحریک پاکستان اور بھارتی تعصبات
Aug 15, 2012