مجوزہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کیلئے حکومت کا تذبذب اور عسکری قیادتوں کا دوٹوک مو¿قف ....آل پارٹیز کانفرنس کے مخمصے میں پڑنے کے بجائے حکومت خود عملی پیشرفت کرے

مجوزہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کیلئے حکومت کا تذبذب اور عسکری قیادتوں کا دوٹوک مو¿قف ....آل پارٹیز کانفرنس کے مخمصے میں پڑنے کے بجائے حکومت خود عملی پیشرفت کرے

حکومت نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں موثر اقدامات کیلئے جدید بنیادوں پر مشترکہ انٹیلی جنس سیکرٹیریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی سمیت تمام انٹیلی جنس اداروں کے مابین کوآرڈی نیشن ہو گی۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجوزہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے خدوخال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اس پالیسی کا خاکہ دو ہفتے میں وزیراعظم میاں نوازشریف کو پیش کردیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن اور جنگ دونوں کیلئے تیار ہیں۔ جنگ ہوئی تو پھر دل و جان سے ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائیں۔ اس بارے میں آل پارٹیز کانفرنس جو فیصلہ کریگی‘ حکومت اس پر عملدرآمد کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے اور افغانستان میں مداخلت ہماری جنگ نہیں۔ یہ جنگ مسلط کرنیوالے اب جانے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ ملک کی گلیوں‘ خانقاہوں اور شہروں میں ناحق انسانی خون بہانے والوں کیخلاف جنگ ہماری جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی بنانے میں امریکہ کو دو سال‘ سری لنکا کو 30 سال‘ بھارت کو 20 سال اور برطانیہ کو 50سال لگے جبکہ ہمارے خلاف ابھی سے پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ حکومت سکیورٹی پالیسی لانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ یہ کوئی گڈے گڈی کا کھیل یا کوئی تماشا نہیں اور نہ ہی مرچ مصالحے کو ملانا ہے کہ ہم راتوں رات پالیسی بنالیں۔ انہوں نے کہا کہ فریم ورک کا اعلان کل ہو سکتا ہے مگر ہم عملدرآمد چاہتے ہیں۔ انکے بقول نیشنل سکیورٹی پالیسی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک اندرونی معاملات اور دوسرا حصہ بیرونی اور سٹرٹیجک معاملات سے متعلق ہے۔ ہم اس ماہ آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جو صرف کارروائی کیلئے نہیں ہو گی بلکہ اس سے ہمیں سیاسی مفاہمت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم قوم کے سامنے ایک متفقہ لائحہ عمل رکھیں گے۔
بارہ سال قبل امریکی نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ بلاشبہ ہم پر سخت نتائج سے دھمکا کر مسلط کی گئی جس میں نقصان بھی ہمارا ہی زیادہ ہوا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عناصر ایک مائنڈ سیٹ کے تحت دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک اور ملوث ہوتے ہیں‘ وہ ہماری اپنی سرزمین پر موجود ہیں جو ملک کے آئین اور سسٹم کو اعلانیہ تسلیم نہیں کرتے اور دہشت گردی کی کارروائیاں اپنا ساختہ مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے افسران و جوان سیاسی شخصیات اور مخالف فرقے کے لوگوں کے علاوہ عام بے گناہ انسانوں کا بھی خونِ ناحق بہتا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ نائن الیون کے سانحہ سے پہلے بھی موجود تھا اور نیٹو فورسز کے آئندہ سال افغانستان سے انخلاءکے بعد بھی اس مائنڈ سیٹ میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی اس لئے ہماری اپنی دھرتی پر ہمارے اپنے بے گناہ لوگوں کا خون ناحق بہانے والوں کیخلاف جنگ بلاشبہ ہماری اپنی جنگ ہے جس میں کامیابی حاصل کرکے ہی حکومتی‘ ریاستی اتھارٹی کو تسلیم کرایا جا سکتا ہے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصان کو آئندہ کیلئے روکا جا سکتا ہے۔ چودھری نثارعلی خان نے یقیناً اسی تناظر میں ملک کے اندر فتنہ‘ فساد پھیلانے والے عناصر کیخلاف جنگ کو اپنی جنگ کا نام دیا ہے جبکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی متعدد مواقع پر ان ملک‘ امن اور جمہوریت دشمن عناصر کیخلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز بھی کاکول میں آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ دہشت گردی کے آگے جھکنا کوئی حل نہیں‘ انکے بقول دہشت گردی کیخلاف جنگ تبھی جیتی جا سکتی ہے‘ جب ہم سب مل کر ایک حکمت عملی پر متفق ہوں تاکہ نہ ہمارے ذہنوں میں ابہام رہے‘ نہ دہشت گردوں کے۔ ان کا یہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ پاک فوج نے دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں‘ ہمیں ذرہ برابر شک نہیں ہونا چاہیے‘ نہ ہم بحیثیت قوم ناکام تھے اور نہ کبھی ناکام ہونگے۔ انکے مو¿قف سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ افواج پاکستان دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کے حق میں ہیں اور ان سے بات چیت کی کسی ممکنہ حکمت عملی کو دہشت گردوں کے آگے جھکنے سے تعبیر کرتی ہیں۔
یہ صورتحال یقیناً حکومت کی آزمائش ہے‘ کیونکہ حکومت کی اپنی صفوں میں بھی اور حکومت سے باہر موجود دینی‘ سیاسی قوتوں میں بھی غالب سوچ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی سے نجات کی خواہش مند نظر آتی ہے جبکہ اس سوچ کو کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کراکے مزید تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے مائنڈ سیٹ کے تحت بندوق اٹھا کر ریاستی اتھارٹی کو چیلنج اور اپنے ہی ملک کے بے گناہ انسانوں کا خون ناحق بہانے والے جو عناصر سرنڈر کرکے اور ریاستی اتھارٹی اور آئین پاکستان کو تسلیم کرکے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہیں‘ انہیں ضرور ”اون بورڈ“ لینا چاہیے جس کیلئے انکے ساتھ ہمدردی رکھنے والی دینی‘ سیاسی قوتوں کی مدد لی جا سکتی ہے تاہم جن کا ایجنڈہ ہی دہشت گردی کی کارروائیوں سے ملک میں افراتفری اور خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کا ہے‘ انکے ساتھ کس ایشو پر مذاکرات کئے جائینگے؟
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے بے شک دو ماہ کا عرصہ گزرا ہے مگر اقتدار میں آنے سے پہلے بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو دہشت گردی کے پیدا کردہ مسائل کا ادراک تھا اور نیشنل سکیورٹی پالیسی میں ناکامی کے جن الزامات پر وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان میڈیا کانفرنس میں زود و رنج نظر آئے‘ یہی الزامات وہ خود سابق دور حکومت میں بطور اپوزیشن لیڈر اس وقت کے حکمرانوں پر عائد کرتے رہے ہیں‘ اس لئے یہ معاملہ محض تنقید برائے تنقید کا نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے تدارک کے عملی اقدامات بروئے کار لانے کا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت نیشنل سکیورٹی پالیسی کے خدوخال کے حوالے سے گومگو کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ قومی سلامتی کے معاملات میں کسی حکومتی پالیسی کی تشکیل میں سکیورٹی فورسز کے عمل دخل سے بھی گریز کرنا چاہتی ہے اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی حامی دینی سیاسی قوتوں کی ناراضی بھی مول نہیں لینا چاہتی جبکہ دہشت گردی کی جنگ کے معاملہ میں ملک کی عسکری قیادتوں کے ذہن میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔ اس صورتحال میں اگر حکومت قومی سلامتی کے معاملات میں سکیورٹی فورسز کے عمل دخل کی گنجائش ختم کرکے انتہا پسندوں سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی کوئی پالیسی وضع کرتی ہے تو اس سے حکومت کو عسکری اداروں کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے بچنے کیلئے ہی حکومت آل پارٹیز کانفرنس میں اتفاق رائے سے کسی فیصلے پر زور دے رہی ہے تاکہ اس اے پی سی میں غالب اکثریت کی سوچ کے تحت مذاکرات کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے تو حکومت مذاکرات مخالف حلقوں بشمول عسکری حلقوں کو یہ باور کراسکے کہ اے پی سی کے متفقہ فیصلوں پر عملدرآمد اسکی مجبوری ہے۔
اس حکومتی پالیسی کو مذاکرات کے ممکنہ فیصلے پر دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن اپریشن کے حامی حلقوں کو مطمئن کرنے کا ڈھکوسلہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے کوئی عملی نتیجہ برآمد ہونے کی ہرگز توقع نہیں۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے معاملہ میں حکومتی سوچ کا ایک پہلو یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ وہ فوج کے ماتحت انٹیلی جنس اداروں پر حکومتی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے ہی تمام انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ انٹیلی جنس سیکرٹیریٹ کا آئیڈیا فلوٹ کیا گیا ہے تاکہ اس سیکرٹیریٹ کے ذریعے انٹیلی جنس اداروں پر حکومتی کنٹرول مضبوط بنایا جا سکے۔ اس ایشو پر عسکری قیادتوں کے پہلے ہی بے جا تحفظات موجود ہیں جن کا اظہار پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد کی کیری لوگر بل کے ذریعے منظوری کے مراحل میں اس امداد کی سول کنٹرول میں عسکری اداروں میں تقسیم کی تجویز پر پہلے ہی سخت ناپسندیدگی کی صورت میں کیا جا چکا ہے۔ لیکن آئین کے مطابق افواج کا کمان سویلین حکومت کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ انا پر چوٹ لینے کے بجائے آئین کی فرمانبرداری کرنے میں ہی سب کی عزت ہے۔ یہ تاثر ختم کیا جانا چاہیے کہ فوج سویلین حکومت کی کمانڈ سے بالاتر ہونا چاہتی ہے۔ عسکری قیادتیں دہشت گردوں کیخلاف خون میں قیمت ادا کر چکی ہے اور کالعدم تنظیموں کا مذاکراتی عمل میں تجربہ کرنے کے بعدبے لاگ اور فیصلہ کن اپریشن کے حق میں ہیں۔ اگر اس معاملہ میں حکومت کوئی حتمی فیصلہ سیاسی جماعتوں کی اے پی سی پر چھوڑ دیتی ہے تو پھر دہشت گردوں کیخلاف کسی فیصلہ کن اپریشن کی کبھی نوبت نہیں آئیگی۔
اس تناظر میں اگر حکومت خود بھی یہ سمجھتی ہے کہ ریاستی اتھارٹی‘ ملکی سلامتی اور آئین پاکستان کو چیلنج کرنے اور بندوق کے زور پر اپنے مائنڈ سیٹ والا ایجنڈہ پورے ملک پر مسلط کرنے کی سوچ رکھنے والے عناصر کا قلع قمع کئے بغیر امن اور خوشحالی کا خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو سکتا تو پھر حکومت کو گومگو میں پڑنے اور آل پارٹیز کانفرنس کا سہارا لینے کے بجائے خود ہی ملک‘ امن اور عوام دشمن عناصر کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کر دینا چاہیے۔ اگر سانحہ¿ چلاس کے بعد کسی اے پی سی کے انعقاد کے بغیر حکومت نے خود دہشت گردوں کیخلاف اپریشن کا آغاز کیا تو اسی بنیاد پر اے پی سی کے چکروں میں پڑے بغیر حکومت کو تمام متعلقہ علاقوں میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے خود ہی اپنے سکیورٹی اداروں کے ذریعے فیصلہ کن اپریشن کا آغاز کر دینا چاہیے ورنہ ریاستی حکومتی اتھارٹی کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دہشت گرد اس سرزمین پر وہ کچھ کر گزریں گے‘ جس کا وہ ایجنڈہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگر حکومت کو اپنے اقتدار کے دو ماہ بعد قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کیلئے اقدامات اٹھانے کا خیال آیا ہے تو یہ بھی مستحسن سوچ ہے تاہم اس پالیسی میں ملک و قوم کے مفاد کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے جس کیلئے اے پی سی کا انعقاد وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ ایسے کسی بے نتیجہ ”سٹیج شو“ کا اہتمام کرنے کے بجائے حکومت کو خود عملی پیش رفت کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...