ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ خواجہ نظام الدین اولیاء لب دریا کوٹھے پر بیٹھے ہوئے تھے اور اہل ہنود کے اشنان اور طریقہ عبادت کو دیکھ رہے تھے۔ امیر خسرو سے مخاطب ہو کر فرمایا
ہر قوم راست راہے دینے وقبلہ گاہے
یعنی ہر قوم سیدھے راستے پر ہے جو اپنا دین اور قبلہ بھی رکھتی ہے۔ اس وقت نظام الدین اولیاء کی ٹوپی اتفاق سے ٹیڑ ھی تھی۔ امیر نے اسی طرف اشارہ کر کے کہا
’من قبلہ راست کر دم برطرف کج کلا ہے‘ یعنی میں نے ٹیڑھی ٹوپی والے کی طرف رخ کر کے اپنا قبلہ سیدھا کردیا ہے۔
خواب میں شیخ سعدی کی نعت سن کر اپنی کتاب دریا میں ڈال دی۔
علامہ زمان میرغلام علی آزاد بگرامی اپنی کتاب خزانہ ء عامرہ میں تحریر کرتے ہیں کہ جس وقت امیر خسرو نے حضرت سلطان المشائخ کی خد مت میں حاضر ہوکر اپنی نظم جو حضرت کی مدح میں لکھی تھی سنائی توآپ خوش ہوئے اورفرمایا کہ کیا صلہ چاہتا ہے عرض کیا کہ دعا فرمائیے کہ میرے کلام میں شیرینی پیدا ہوجائے۔ فرمایا کہ ہماری چارپائی کے نیچے شکر رکھی ہے اس کو لاکر اپنے سر پر سے نثار کر اورتھوڑی سی اس میں سے کھالے ۔ امیر نے ایسا ہی کیا اورشرینی کلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ بعد میں افسوس کیا کہ میںنے اس سے بہتر چیز کی دعا کے واسطے کیوں نہ خواہش کی۔
ایک مرتبہ حضرت امیر خسرو نے رسول کریمؐ کی شان میں ایک طویل نعت لکھی، جو ایک کتاب بن گئی۔ آپ نے وہ کتاب اپنے پیر کی خدمت میں پیش کی۔ حضرت نے اس کو لے لیا۔ جب کئی روز گزر گئے اور امیر نے اس کے بارے میں حضرت کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھ لیا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا۔ امیر نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ اگر رائے عالی معلوم ہوجائے تو اس خادم کو اطمینان ہوجائے گا۔ حضرت نے جواب دیا کہ اچھا تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ اسی روز امیر نے رات کو خواب دیکھا کہ ایک مجلس ہے جس میں اکثر اولیائے عظام تشریف فرما ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتظار کیا جارہا ہے ۔چنانچہ وہ بزرگ بھی تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے۔ صدر جلسہ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ سعدیؔ اپنی وہ نعت سناؤ جس سے بہتر رسول کریمؐ کی شان میں کوئی نعت ہو ہی نہیں سکتی۔ سعدیؔ نے خوش الحانی سے یہ نعت سنائی۔
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف دجابجامالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ
یہ سن کر سب پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اورامیر کی آنکھ کھل گئی۔ صبح کو پیر کی خدمت میں حاضر ہو کر رات کے خواب کا ماجرا بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ خسرو سعدیؔ نے اس نعت میں دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ اس سے بہتر کوئی کیا کہ سکتا ہے۔
فی الحقیقت انسان کی صفات میں یہی تین چیزیں دیکھی جاتی ہیں یعنی اس کا کمال‘ جمال اور خصال حضرت محمدؐ ان تینوں صفات کا ایسا مجموعہ تھے جو کسی بشر میں نہیں پائی گئیں ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ اللہ نے خود تعریف فرمائی ہے اورکلام پاک اس کا موید ہے۔ امیر خسرو نے بھی اس کو تسلیم کیا اور پیر سے کتاب لے کردریا میں ڈال دی۔ پیرکو حضرت امیر سے اس قدر انس تھا کہ یہ وصیت فرمائی تھی کہ خسرو میرے مزار کے قریب نہ آنے پائیں ورنہ بے تاب ہو کر میرا جسم باہر آ جائے گا چنانچہ امیر مزار سے دور ہی بیٹھے رہتے تھے۔ آج بھی یہ دستور ہے کہ زائرین پہلے حضرت امیر کے مزار پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد شاہ نظام الدین کے مزار پر جاتے ہیں اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
……………
حضرت محبوب الٰہی کی لعاب دہن کی برکت
نفحات الانس میںمولانا جامی نے فرمایا ہے کہ ایک دن حضرت سلطان المشائخ کے اشارے سے حضرت امیر خسرو خواجہ خضرؑ سے ملاقاتی ہوئے اور لعاب دہن کی خواہش کی، حضرت خضرؑ نے جواب دیا کہ یہ دولت توشیخ سعدی کی قسمت میں تھی جو ان کو مل گئی۔ امیر خسرو نہایت شکستہ دل ہو کر حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضرہوئے اور کل حال بیان کیا حضرت اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا اور برکت اس کی ظاہر ہوگئی۔