جمعۃالمبارک18 شوال المکرم ‘ 1435 ھ ‘ 15؍ اگست2014ء

Aug 15, 2014

خواجہ شہاب الدین نے مسٹر راشدی کو پی این ای سی کا صدر کیا بنوایا ہے کہ راشدی صاحب نے اپنے آپ کو پاکستان کا ہوم منسٹر سمجھنا شروع کر دیا۔ خواجہ صاحب نے سانجھ بنانے کے لئے بھارت بھیجا تھا۔ وہاں آپ نے واہی تباہی میں وہ کچھ کہہ دیا جو نہیں کہنا چاہئے تھا۔ سوائے وزارتِ داخلہ اور ایک خوشامدی اخبار کے سب بہی خواہوں نے راشدی صاحب کو یاد دلایا کہ وہ اپنا نہیں تو اپنی کرسی کا ہی خیال کریں۔ نزلہ بر عضوِ ضعیف می ریزد، راشدی صاحب نے بھارت سے آتے ہی مدیرہ دستکاری کو گستاخی کی سزا دی اور کہا ’’مابدولت نے انہیں اپنی مجلس قائمہ کا رکن نامزد کیا تھا اب ڈسمس کرتے ہیں۔‘‘ کراچی پہنچے اور بکھر گئے اور ’’جنگ‘‘ اور انجام‘‘ کے ایڈیٹروں کو ڈانٹا کہ ’’تم لوگوں نے بھی مجھ پر نکتہ چینی کرنے کی جسارت کی۔ وجہ بتائو تمہیں پی این ای سی کی رکنیت، مجلس مشاورت کی رکنیت، فلم سنسر بورڈ وغیرہ سے کیوں نہ نکال دیا جائے؟‘‘ شکر ہے کراچی اور پاکستان سے نکالنے کا ارادہ نہیں کیا۔ ورنہ مدیران ’’جنگ‘‘ و ’’انجام‘‘ راشدی کا کیا بگاڑ سکتے تھے لیکن انہوں نے وجہ بتانے کی بجائے ان کی نام نہاد مجلس کی ابتدائی رکنیت اور اس کی سٹینڈنگ کمیٹی سے ہی استعفیٰ دے دئیے ہیں۔ سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بگاڑی پیدا کر لیا ہے۔ دیکھیں ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ اب غالباً جناب خواجہ باریاب فرما کر بہ الفاظ ’’زمیندار‘‘ جادوگری فرمائیں گے۔ ایک چھوڑ چار وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ وزارتِ داخلہ، نشریات و اطلاعات و مہاجرین اور پھر چار وزارتوں پر بھاری سیفٹی آرڈیننس کا ڈنڈا ۔ خدا ’’جنگ‘‘ اور ’’انجام‘‘ کو استقامت بخشے۔ لاہور میں تو یہ دعا کبھی قبول نہیں ہوئی ممکن ہے کراچی میں ہو جائے۔
(مجید نظامی ۔ بدھ 7 جون 1950)
٭…٭…٭…٭
ایرانی نژاد مریم مرزا آغا خانی، ریاضی کا اعلیٰ ترین اعزاز فیلڈز میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں!
یہ اعزاز ریاضی کے شعبے میں نوبل کا اعزاز سمجھا تا ہے۔ یہ جیومٹری کی انتہائی مشکل اور پیچیدہ ترین اشکال پر مشتمل مضمون ہے۔ عالم اسلام کی زبوں حالی تو دیکھیں کہ اس کے کیسے کیسے گوہرِ نایاب دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ اگر یہی مریم مرزا کسی اسلامی ملک میں ہوتی تو اسے فی الحال جیومٹری اور الجبرا کی بجائے مرد اور عورت کی عدم مساوات کا فلسفہ سمجھایا جا رہا ہوتا۔ اس صنفی اختلاف اور علمی تفریق والے رویوں کی بدولت ہمارے اعلیٰ ذہین دماغ مغرب کے اُفق پر ستارے بن کر چمکتے ہیں اور اپنے ملک میں انہیں پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی ذہین خواتین کو علمی میدان میں آگے بڑھنے کا موقع دیں تو ہمارے اُفق پر بھی کہکشائوں کی دنیا روشن ہو سکتی ہے۔ جس سے جہالت کے اندھیرے چھٹنے لگیں گے۔
٭…٭…٭…٭
آج کل گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ہمارے اعلیٰ دماغ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود نے ایک سرمایہ کار گروپ سے معاملات اپنے ذریعے طے کرانے پر زور دیتے ہوئے حمزہ شہباز کے دماغ میں بُھس بھرنے کا انکشاف کیا ہے جو خاصی تعجب کی بات ہے۔ ایک طرف تو یہ افواہیں ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے سارا پنجاب حمزہ کی ذہنی صلاحیتیں دیکھ کر ان کے سپرد کر رکھا ہے وہی سارا صوبہ چلا رہے ہیں دوسری طرف اسی وزیر اعلیٰ کے مقرر کردہ وزیر قانون ہمارے وزیر اعلیٰ کے نظرِ انتخاب کے بارے میں ایسی ہرزہ سرائی کرتے نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی سرمایہ کاروں کے سامنے۔
لگتا ہے پنجاب میں وزیر قانون بننے کے لئے شاید رانا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے رانا ثناء اور اب رانا مشہود اس عہدے پر فائز ہیں جن کا سارا زور صرف مونچھوں کی پرورش اور بیان بازی پر ہے۔ اگر یہ چرب زبان کی بجائے اپنے کام پر توجہ دیں تو وہ حکومت پنجاب اور عوام دونوں کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وزیر اعلیٰ اس بُھس بھرے دماغ کو ہٹا کر کسی صحیح الدماغ شخص کا انتخاب کرتے یا ہیں وزارتِ قانون کے لئے بُھس بھرے دماغ کا ہونا بھی ضروری ہے۔
٭…٭…٭…٭
بیگانی شادی میں عبدالہ دیوانہ کی کہاوت تو سب نے سُنی ہو گی اسکی عملی تصویر دیکھنی ہو تو وہ مولانا طاہر القادری کو جا کر دیکھ لے۔ ان کا انقلاب ماڈل ٹائون کی جوشیلی تقریروں کی بھول بھلیوں میں کسی آوارہ بچے کی طرح کھو گیا ہے اور کوئی اسکی تلاش میں جانے والا بھی نہیں۔ اب وہ عمران خان کے آزادی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئے ہیں جو انہیں راستوں پر گامزن ہے جس کو طاہر القادری کھوٹی راہیں کہہ کر ان کو اکھاڑ دینے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔
بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے اسی طرح کے کسی صورتحال کی عکاسی اپنے اشعار میں یوں کی تھی …؎
اے اہل درد گردشِ دوراں بھی دیکھئے
تذلیل علم و دانش و عرفاں بھی دیکھئے
ہر شہر خونِ ناحق انساں سے لالہ زار
پھر اہتمامِ جشنِ بہاراں بھی دیکھئے
اب دیکھنا ہے کہ اس آزادی اور انقلابی مارچوں کی بہار میں مولانا کا غُنچہ امید بھی کِھلتا ہے یا نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم ایسے گوہرِ نایاب کو پھر کھو دے جو بڑی مشکل سے واپس آیا ہے۔

مزیدخبریں