عمران خان اور طاہرالقادری کے آزادی اور انقلاب مارچ کی اسلام آباد روانگی اور حکومتی بدحواسیاں…عوامی مینڈیٹ کے تقاضے نبھا کر ہی حکمران اپنے اقتدار اور جمہوریت کو بچا سکتے ہیں

حکومتی سخت گیر اقدامات اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے غیر آئینی طریقے سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی اجازت نہ دینے کے باوجود یوم آزادی پر اپنے اپنے شیڈول کے مطابق عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاہور سے اسلام آباد کے لئے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا آغاز کر دیا جس کے لئے پنجاب حکومت کے ایما پر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے پرامن رہنے کی یقین دہانی حاصل کرکے انہیں فری ہینڈ دے دیا۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچوں کی اجازت دینے کے معاملہ میں اہم رابطہ کار کا کردار ادا کیا جن کے بقول ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو قانون ہاتھ میں نہ لینے اور پرامن رہنے کے لئے قائل کیا اور ان کی یقین دہانی پر پنجاب حکومت نے عمران خاں کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی مارچ کی اجازت دے دی۔ رات گئے تک آثار یہی نظر آتے تھے کہ عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے لئے گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کے لئے لاہور ہائیکورٹ کے گزشتہ شام جاری کئے گئے فیصلے کو بنیاد بنایا جا رہا تھا جس کے تحت ان دونوں جماعتوں کو یوم آزادی کے تقدس کے پیش نظر اور پیدا شدہ غیر یقینی کی صورتحال میں ممکنہ انتشار سے بچنے کے لئے غیر آئینی آزادی و انقلاب مارچ اور دھرنے سے روک دیا گیا تھا۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ پر بھی تمام متعلقہ فریقین اپنا اپنا مفہوم نکالتے رہے۔ عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے وکلاء یہ تاثر دیتے رہے کہ عدالت عالیہ نے صرف غیر آئینی مارچ اور دھرنے سے روکا ہے جبکہ ان کے مارچ اور اسلام آباد کا دھرنا غیر آئینی نہیں ہے اور وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حق استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دوسرے حکومتی وکلا کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزراء بھی میڈیا پر یہ استدلال پیش کرتے رہے کہ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں آزادی اور انقلاب مارچ اور دھرنے کو غیر آئینی قرار دے کر روک دیا ہے اس لئے عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایسے احتجاج کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے یوم آزادی کا تقدس مجروح ہویا ملک میں انتشار اور افراتفری کی صورتحال پیدا ہوتی ہو۔ اسی بنیاد پر گزشتہ رات کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کو روکنے کے لئے مزید سخت انتظامات کر دئیے گئے اور عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھروں کے تمام راستے مٹی بھرے کنٹینر لگا کر بلاک کر دئیے گئے اور لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹر وے اور جی ٹی روڈ کی بھی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی حالانکہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں کنٹینرز اور بیرئر ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ اس سے یہی تاثر پیدا ہوا کہ حکومت عمران خاں اور طاہرالقادری کے مارچ ہر قیمت پر روکنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ تاہم 14 اگست کی صبح حیران کن طور پر عمران خاں اور طاہرالقادری کے گھروں کے باہر اور دوسرے راستوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور پھر سی سی پی او اور ڈی سی او لاہور نے عمران خاں اور طاہرالقادری کے گھروں پر جا کر ان سے پرامن رہنے کی تحریری یقین دہانی حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی انہیں آزادی اور انقلاب مارچ کے لئے فری ہینڈ دے دیا گیا چنانچہ 14 اگست کی دوپہر عمران خاں اور طاہرالقادری اپنے اپنے پروگرام کے مطابق اپنے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے جلو میں الگ الگ راستوں سے جلوس بنا کر اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئے تاہم یہ دونوں مارچ الگ الگ راستوں سے ہی شاہدرہ چوک پہنچ کر یکجا ہو گئے۔
اگر حکومت عمران خاں اور طاہرالقادری کے غیر آئینی تقاضوں اور احتجاج کا سیاسی فہم و بصیرت کے تحت توڑ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتی اور کنٹینر پالیسی کے تحت ان احتجاجی پروگراموں کو ریاستی طاقت کے زور پر روکنے کے بجائے شروع سے ہی فری ہینڈ دے دیتی تو سخت حکومتی اقدامات پر عوام کے لئے بھی مسائل کھڑے نہ ہوتے جبکہ فری ہینڈ کے دوران عمران خاں اور طاہرالقادری تشدد، توڑ پھوڑ، تخریب کاری، بلوئوں یا گھیرائو جلائو کا راستہ اختیار کرتے تو عوام پر ان کے عزائم خود ہی بے نقاب ہو جاتے جس سے ان کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو روکنے کے لئے ریاستی طاقت کے استعمال کا جواز بھی نکل آتا مگر بدحواسی پر مبنی حکومتی پالیسیوں نے خود ہی بگاڑ کی صورتحال پیدا کی جس میں عمران خاں اور طاہرالقادری کو اپنی اپنی سیاست چمکانے اور اپنے جارحانہ اعلانات کے ذریعے حکومت کو بیک فٹ پر لے جانے کا زیادہ موقع حاصل ہو گیا چنانچہ گزشتہ دو ہفتے تک ملک میں افراتفری اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال فروغ پاتی اور مستحکم ہوتی رہی۔ نتیجتاً جمہوریت کے خلاف ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کی صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔ اسی فضا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے اعلان کردہ /10 اگست کے یوم شہداء کے موقع پر پولیس اور دوسرے ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد سیاست کو فروغ دینے کا موقع بھی ملا جس میں دو پولیس اہلکاروں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور عمران خاں اور طاہرالقادری کے مابین اکٹھے اسلام آباد مارچ پر بھی اتفاق ہو گیا۔
عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے اور ان کے استعفے کے مطالبات کی بے شک آئین و قانون کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے اور اس بنیاد پر ہی ملک کے تقریباً تمام سینئر قانون دانوں اور اپوزیشن کے قائدین نے بھی ان تقاضوں کو غیر آئینی اور بلاجواز قرار دیا ہے جبکہ عمران خاں اور طاہرالقادری کے آزادی اور انقلاب مارچ کے روانہ ہونے کے باوجود اور اسلام آباد دھرنے کی صورت میں بھی عمران خاں اور طاہرالقادری کو اپنے ان مطالبات میں کامیابی حاصل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا مگر یہ حکومت مخالف فضا پیدا کرنے میں حکمرانوں کا اپنا ہی عمل دخل ہے۔ حکومت نے پہلے تو عمران خاں اور طاہرالقادری کے احتجاجی پروگراموں کے اعلان پر بے نیازی کی پالیسی اختیار کئے رکھی اور خود وزیراعظم نواز شریف عمرہ کی ادائیگی کے لئے دس روزہ دورے پر سعودی عرب چلے گئے جبکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے نادان مشیروں نے مضحکہ خیز اور اشتعال انگیز بیانات دے کر سیاسی کشیدگی کو بڑھانا شروع کر دیا حالانکہ اس سے قبل انہی نادان حکومتی مشیروں کی بے تدبیری سے ماڈل ٹائون لاہور کا سانحہ رونما ہو چکا تھا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا جبکہ طاہرالقادری کو اپنے تخریبی، فسطائی سیاسی ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کے لئے بیٹھے بٹھائے اپنے درجن بھر کارکنوں کی لاشوں کا چارہ مل گیا۔ اس سانحہ کے بعد تو حکومت کو مزید محتاط ہو جانا چاہئے تھا اور طاہرالقادری اور عمران خاں کے اعلان کردہ مارچوں کو روکنے کے لئے ایسی پالیسی، جس سے عوام کے لئے مزید مسائل کھڑے ہوئے، اختیار کرنے کے بجائے حکومت انہیں فری ہینڈ دے دیتی تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شرکاء کی تعداد کچھ بڑھ جاتی۔ حکومت کو اور کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا مگر حکومت نے چونکہ گزشتہ سال کے انتخابات میں عوام کے حاصل کردہ مینڈیٹ کے تقاضے پورے نہیں کئے اور اس کی پالیسیوں سے عوام کے روٹی روزگار کے مسائل اور توانائی کا بحران مزید گھمبیر ہو گیا نتیجتاً ایک سال کے اندر اندر موجودہ حکمرانوں کی حالت سابقہ حکمرانوں سے بھی بدتر ہو گئی جس سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں یہ احساس اجاگر ہونے لگا کہ حکومتی پالیسیوں سے مضطرب عوام عمران خاں اور طاہرالقادری کے حکومت مخالف احتجاجی پروگراموں کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ حکومت نے اس صورتحال کو اپنی کمزوری بنا کر جلد بازی میں عمران خاں اور طاہرالقادری کے احتجاجی مارچوں کو ریاستی طاقت کے زور پر روکنے کی پالیسی اختیار کی جو اس کے گلے پڑی اور بالخصوص عمران خاں کے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بلاجواز ہونے کے باوجود انہیں اپنے ان الزامات کی بنیاد پر حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لے جانے اور اپنی سیاست میں جارحانہ انداز اختیار کرنے کا موقع ملا جبکہ طاہرالقادری کے جمہوریت مخالف ایجنڈے کو تو کسی بھی سیاسی حلقے کی جانب سے تائید حاصل نہیں ہوئی تھی اس کے باوجود حکمرانوں کے ہاتھ پائوں پھولے رہے۔ اگر حکومت ان احتجاجی پروگراموں کو سختی سے روکنے کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے عوام کو ان کے مسائل میں ریلیف دے کر اور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے اقدامات اٹھا کر سسٹم پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور ان کے دل جیتنے کی کوشش کرتی تو طاہرالقادری کو اپنے مذموم جمہویت مخالف اور عمران خاں کو اپنے غیر آئینی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کبھی موقع نہ ملتا۔ جب حکمران عوام کے حاصل کردہ مینڈیٹ کے تقاضے نبھانے سے اجتناب کرتے ہیں تو انہیں یقیناً ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اب عمران خاں اور طاہرالقادری کے مارچ اور دھرنے سے حکومت کو کوئی گزند پہنچتی نظر نہیں آ رہی مگر اقتدار کے ایوانوں میں زلزلے کے اس جھٹکے سے حکومت کے بچ جانے میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیںبلکہ عمران خاں اور طاہرالقادری کے ملین مارچ والے بلند بانگ دعوے پورے نہ ہونے کے نتیجہ میں ان کے حکومت مخالف احتجاج کا ٹمپو ٹوٹا ہے جس کا حکومت کو ازخود فائدہ پہنچ گیا ہے۔ یہ صورتحال حکومت سے مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کی نہیں بلکہ آئندہ کے لئے سبق حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔ وہ اپنی بدحواسیاں ختم کرکے اپنی ناقص پالیسیوں پر نظرثانی کرنے اور اپنے حاصل شدہ عوامی مینڈیٹ کے تقاضے نبھانے کے اقدامات بروئے کار لائے ورنہ آنے والے کل کے آفٹر شاکس بھی حکومت کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...