غیر اعلانیہ سرکاری و قومی سوگ

مجھے جناب ڈاکٹر مجید نظامیؒ کے مشن اور وژن‘ قومی و ملکی خدمات کے پیش نظر قوم اور خصوصاً اپنے قومی میڈیا سے گلہ رہتا تھا محض کاروباری و پیشہ ورانہ رقابت کی بناء پر اس قومی ہیرو اور محسن پاکستان کے اقوال و کردار کو قومی سطح پر کوریج سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔
میرا یہ گلہ ان کے وصال پر میڈیا نے بھرپور کوریج نے دور کر دیا بلکہ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی ان کی خدمات کو سلام پیش کیا۔  میں سمجھتا ہوں جب وزیر اعظم کے بھائی سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ، سپیکر قومی اسمبلی اور بہت سے وزراء و سرکاری افسران، سیاستدان، ممبران صوبائی و قومی اسمبلی بلا امتیار حکومت یا اپوزیشن صحافتی، سیاسی سماجی، دینی، غرض ہر طبقہ کے نمائندہ، رہنما اقراء کی جنازہ میں شرکت اور دلی اظہار افسوس اور ان کے لئے تعزیتی و تحسین کلمات و خطابات بلکہ وزیر اعلیٰ نے جنازے کو کندھے سے لے کر اپنی سرکاری ٹیم کے ہمراہ  قبر پر مٹی ڈالنے تک اور قل میں شرکت کر کے قومی و سرکاری نمائندگی کا اظہار کیا۔ خارجی سطح پر چینی سفیر یائون (Yeowen) اور برطانوی ہائی کمشنر ایلین بلیک وغیرہ کا اظہار تعزیت بھی قابل ذکر ہیں۔ خود راقم نے اپنے مشاہدہ تجربہ کے مطابق انہیں بے حد جمہوری حقیقت پسند اور فراخدل شخصیت پایا کئی مواقع مثلاً ملالہ کے بارے میں نوائے وقت کی پالیسی پر اپنے تحفظات جسارت بھرے انداز میں رقم کئے ایسے میں کئی موقعوں پر اپنے کالموں کی نظریاتی جملوں کی کانٹ چھانٹ وغیرہ پر اپنا احتجاج تحریری انداز میں عرض کیا یہ ان کا بڑا پن اور میرے لئے اعزاز ہے کہ ہر بار مجھے فون پر سرزنش یا کالموں کی اشاعت کے ماتم کی وعید کی بجائے مطمئن کیا گیا۔ بلکہ کالم جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ مجھے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ لوٹا کریسی کی بھرپور مخالفت اور پتنگ بازی پر پابندی جیسے موضوعات و مضامین نا چیز معمولی انسان کی درخواست پر شروع کئے گئے اور کامیابی حاصل کی گئی۔موت برحق ہے اس کا انکار ممکن نہیں لیکن جمعتہ الوداع مبارک اور لیلتہ القدر کی مبارک شب جو پاکستان کی آزادی کی رات بھی ہے میں ان کا اپنے خالق حقیقی سے جا ملنا یقیناً ان کے عشق الٰہی اور عشق رسولؐ اور عشق پاکستان کا بین ثبوت اور ان کے ولی اللہ ہونے کی بین دلیل ہے۔ نظامی صاحبؒ نا صرف سیاسی، سماجی، صحافتی، دینی، معاشرتی، علمی شخصیت ہیں بلکہ ان تمام شعبہ ہائے زندگی کا ایک ایسا تعلیمی و تربیتی ادارہ تھے جس نے قوم کو ہزاروں کی تعداد میں دانشور، صحافی، سیاسی رہنما دیئے جو ان کے مشن اور وژن کو اور زیادہ محنت اور ذمہ داری سے بڑھائیں گے کیونکہ باپ کے بعد اولاد کو اور زیادہ ہوش مند اور ذمہ دار ہونے کی ضرورت ہوتی ہے وہ قوم میں ایسی روح پھونک گئے ہیں جو زندگی عطا کرتا ہے یوں بھی جسم مر جاتا ہے روح نہیں ۔

ای پیپر دی نیشن