میں گذشتہ تین چار روز اپنے آپ کو تلاش کر رہا تھا۔ میں نے کئی بار محسوس کیا کہ میرا جسم تو گھر کے فرنیچر پر بیٹھنے، ٹیک لگانے، الٹا سیدھا لیٹنے جیسی مختلف حالتوں میں موجود ہے لیکن میرا دماغ نجانے کہاں کہاں کی سیر کرتا پھر رہا ہے۔ مجھے متعدد بار احساس ہوتا کہ میرا دماغ اغوا ہو چکا ہے۔ یہ اغوا کی نئی قسم ہے۔ ہماری ہاں تو یہ روایت ہے کہ پورے جسم سمیت اغوا کرتے ہیں۔ میں ٹی وی سکرین پر اپنے لیڈروں کی پریس کانفرنسیں دیکھ رہا تھا۔ ہمارے لیڈر کے منہ سے دو الفاظ نکلے۔ یزید اور ابن زیادہ، میرا ذہن کونے اور دمشق کے محلات میں پہنچ گیا ہمارے حکمرانوں کو ان ناموں سے پکار کر اعلیٰ و ارفع مقام سے نوازا گیا تھا۔ میرا ذہن کئی سال پیچھے چلا گیا اور سوچنے لگا کہ اس طرح کی روحانی بیداری ایک مرتبہ پہلے بھی آئی تھی جب ہمارے قومی اتحاد کے معزز اور متقی اراکین نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو مذکورہ ناموں کے مماثل قرار دیا تھا۔ میرے ذہین حیران تھا کہ رمضان شریف میں تو میاں نواز شریف عمرہ ادا کر رہے تھے۔ ان خطابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جو تانگا اور ریڑھی پارٹیاں ہوتی ہیں وہ اللہ کے نہایت قریب اور تقوے کی بلندیوں پر ہوتی ہیں اور برسراقتدار پارٹیوں کو یزید اور زیادہ سے کم خطاب عطا ہی نہیں ہوتا۔ جب یہ خبر آتی کہ ماڈل ٹاؤن میں جگہ جگہ کنٹینر لگا دیئے ہیں تو میرے ذہین میں بڑے بڑے کنٹینر گھومنے لگے۔ میں نے سوچا کہ میرے ذہن کارقبہ بھی بہت چھوٹا ہے۔ اس میں اتنے بڑے بڑے کنٹینر کیسے سما سکتے ہیں۔ جب روحانی لیڈر کے مریدوں نے اپنے بازوؤں کے زور سے کنٹینر کو گھمایا تو میرا سر میری گردن سمیت گھومنے لگا۔ میری زوجہ محترمہ دوڑی آئیں اور انہوں نے میرا گھومتا ہوا سر پکڑا۔ میری بیگم اور بچے میرے سر کو ایک قیمتی سرمایہ سمجھ رہے تھے لیکن یہ قیمتی سرمایہ تو کئی دن سے اغوا ہو چکا تھا۔ ایک دم میرے کانوں میں اسی طرح کی آوازیں آئیں۔ اگر میرا بال بھی بیکا ہوا تو حکمرانوں کو مت چھوڑنا، انہیں ختم کر دینا اور مار دینا، میری آنکھوں کے سامنے ڈنڈے ، چھریاں، چاقو، پستول، رائفلیں اور کلاشنکوفیں لہرانے لگیں اور میرا اغوا شدہ ذہن ان کے اصل مفہوم سے آگاہ ہو گیا۔ میرے اغوا شدہ ذہن نے مختلف روحانی شخصیات کے آستانوں پر جانے کا پروگرام بنایا میرا ذہن ایک مدرسہ نما آستانے پر پہنچا۔ مدرسے کے باہر جو بورڈ آویزاں تھا، اس پر بودے شاہ اور ان کی روحانی کرامات درج تھیں۔ میں گیٹ کے اندر داخل ہوا تو مریدین کی درجنوں باہیں بودے شاہ صاحب کی دو ٹانگوں کو دبا رہی تھیں۔ میں نے بھی مریدوں کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور پیر صاحب سے پوچھا کہ آپ کے کتنے مرید ہیں؟ انہوں نے فرمایا۔ ’’دس ہزار کے قریب‘‘ کیا آپ کے مریدی آپ کے حکم پر حکمرانوں کو رانوں سے پکڑ کر تخت سے نیچے اتار سکتے ہیں؟ پیر صاحب بولے، میرے حکم پر تو یہ کسی کا بھی ’’تکا بوٹی‘‘ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح میرا ذہن ایک اور مدرسے کی طرف بڑھا۔ وہاں جلی حروف میں ٹنڈشاہ لکھا تھا۔ یہ پیر صاحب خود بھی ٹنڈ کراتے تھے اورپ اپنے مریدوں کو ٹنڈ کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ میں نے ٹنڈ شاہ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے مریدین پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔میرے حکم پر یہ حکمرنواں کی ’’ملائی بوٹی‘‘ تیار کردیں گے۔ اسی طرح ایک مدرسے پر تمہوڑی شاہ کے الفاظ نظر آئے۔ ان کا روحانی کرشمہ یہ تھا کہ مدرسے میں بیٹھے پاکستان کے مخالفین کو تمہوڑیاں لڑا سکتے تھے۔ براک ابامہ کو کئی بار تمہوڑی لڑا چکے تھے۔ چند دن قبل نیتن یاہو کو تمہوڑیاں لڑاتے تھیں تاکہ وہ فلسطینیوں بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے سے باز رہے۔ تمہوڑی شاہ نے کہا کہ ان کے مرید آنکھ جھپکنے سے پہلے پہلے حکمرانوں کے باربی کیو تیار کردیں گے۔ میرا ذہن ایک اور آستانے کی طرف بڑھا۔ یہاں لٹاں والی، سرکار کا بورڈ آویزاں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے مریدوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہیں یہ میری زلفوں کے تاروں سے بندھے ہوتے ہیں، اگر میں انہیں حکم دے دوں تو یہ وائٹ ہاؤس سے کالے براک ابامہ کو میرے قدموں میں لا ڈالیں گے۔ لوکل حکمرانوں کو میرے مرید کچھ کہتے ہی نہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب صاحبان ہم سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ میرے ذہن نے ایک اور تکیے کا رخ کیا سڑک کے کنارے نصب شدہ ایک بورڈ پر الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ان کی قابل قدر خدمات جن بھوت نکالنا، ظالم شوہر کو رحم دل بنا کر غلام بنانا طلبہ و طالبات کو امتحانات میں پاس کرانا پاکستانی کرکٹ ٹیم کو جتانے کا تعویز دینا، نا فرمان اولاد کو فرماں بردار بنانا اور جوان جہان اور بڑی عمر کی لڑکیوں کے رشتوں کے لئے اورادو و ظائف بتانا وغیرہ درج تھیں۔ میرے ذہین میں خیال آیا کہ اگر ان سے پوچھا گیا تو ان کے مرید بھی ہزاروں لاکھوں میں ہوں گے اور وہ بھی حکمرانوں کے شامی کباب بنا دیں گے، میرے ذہن میں آیا کہ معاشرے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں، سیاست کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکمرانوں کو قتل کردوں ان کو پکڑ لو، مت چھوڑو اور ان کی تکا بوٹی، ملائی بوٹی، اور ان کے باربی کیو اور شامی کباب بنا ڈالو۔ ایسی چیزوں کے لئے اللہ تعالی نے بکرے، چھترے ، وچھے اور کٹے بنائے ہیں۔
سیاست افہام وتفہیم کا نام ہے!
Aug 15, 2014