لاہور (وقائع نگار خصوصی+ آئی این پی+ نیٹ نیوز) لاہور ہائیکورٹ میں آزادی اور انقلاب مارچ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنیوالے فل بنچ نے 9 صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلے میں عمران خان اور طاہر القادری کے وزیراعظم کے استعفے‘ پارلیمنٹ کی تحلیل‘ ٹیکنوکریٹس کی حکومت اور الیکشن کمشن کے استعفے سمیت چاروں مطالبات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے اگر دونوں جماعتوں کے قائدین یا مظاہرین کوئی غیر آئینی مطالبہ کرینگے تو ان کے خلاف آئین اور قانون کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے‘ 12ستمبر سے کیس کی روزانہ سماعت کیلئے وفاق ‘پنجاب حکومت‘ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ جمعرات کو ہائیکورٹ کے جسٹس خالد محمود، جسٹس انوار الحق‘ جسٹس شاہد حمید پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون موجود ہے اور کوئی بھی جماعت آئین اور قانون سے ہٹ کر کوئی مطالبہ نہیں کر سکتی۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انقلاب اور آزادی مارچ کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور کر لی گئی ہیں۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ہم نے دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا اور وزیراعظم کا قوم سے خطاب، عمران خان کا چار جولائی کو نشر ہونے والا انٹرویو بھی دیکھا۔ بادی النظر میں اس نے ہمیں باور کرایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور چیئرمین پی اے ٹی کے مطالبات ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہیں‘۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کے دوران عمران خان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمشن تشکیل دینے کی پیشکش کی جسے ٹھکرا دیا گیا۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے حوالے سے توہین آمیز زبان استعمال کی جو کہ واضح طور پر توہین عدالت ہے۔ اٹارنی جنرل کو اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے عمران کو توہین عدالت کے نوٹس بھجوانے چاہئیں۔