جس وقت یہ کالم لِکھا جا رہا تھا ٗ جناب عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا کارکنوں کا ’’آزادی مارچ ‘‘زمان پارک لاہور سے اور علامہ طاہر اُلقادری کی قیادت میں اُن کی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا ’’انقلاب مارچ‘‘ ماڈل ٹائون لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو چکا تھا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے اِس فیصلے کے باوجود کہ ’’ کوئی بھی غیر آئینی مارچ (آزادی مارچ/ انقلاب مارچ) نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی دھرنا دِیا جا سکتا‘‘ ہے ۔ مارچ کا آغاز کرنے سے قبل ٗ جناب عمران خان اور علّامہ طاہر اُلقادری نے ’’ حقیقی آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے وہی نکات بیان کئے جو یہ دونوں حضرات وقتاً فوقتاً بیان کر کے اپنے اپنے عقیدت مندوں کا خون گرمایا کرتے ہیں۔
عربی زبان کے لفظ’’مِنہاج‘‘ کا مطلب ہے راستہ اور ’’منہاج اُلقرآن‘‘کا مطلب ہے ’’قرآنِ پاک کا راستہ‘‘۔ پاکستانی قوم اور دُنیا بھر میں مُقیم فرزندانِ و دُخترانِ پاکستان کی کتنی بد قِسمتی ہے کہ ’’تحریکِ منہاج اُلقرآن‘‘ کا سربراہ بن کر ایک خود غرض شخص ۔’’شیخ اُلاسلام‘‘ کا لقب اختیار کر کے پاکستان میں اپنی مرضی کے انقلاب کی ڈگڈگی بجا کر پاکستان کا سیاسی نظام درہم برہم کرنا چاہتا ہے؟۔ طاہراُلقادری نے اپنے اہلِ خانہ سمیت کینیڈا کی شہریت بھی اختیار کر رکھی ہے۔ اگر یہ اپنی چرب زبانی سے چند ہزارلوگوں کو اکٹھا کر کے کینیڈا کے سیاسی نظام کی طرف اپنی میلی اور ’’ ٹِیری‘‘ آنکھوں کی طرف دیکھتے تو ان کی اور کے خاندان کے لوگوں کی کینیڈین شہریت چھین لی جاتی یہ پاکستان کے آئین اور دوسرے قوانین میں وسعت اور فراخدلی کا کمال ہے کہ کوئی بھی دُہری شہریت کا مالک شخص بیرونِ مُلک رہ کر بھی اور یا پاکستان کے دورے پر آکر ’’ انقلاب‘‘ لانے کے لئے دھاڑ سکتا ہے اور گلا پھاڑ کر اعلان کر سکتا ہے کہ
’’ بَک رہا ہُوں ٗ جنو ُں میں کیا کیا کچھ ؟
کچھ نہ سمجھے ٗ خُدا کرے کوئی !‘‘
خود کو ’’ پاکستان بنانے والوں کی اولاد ‘‘ کہنے والے الطاف حسین کے خلاف سنگین جرائم اور دوسرے جرائم میں ملوث ہونے کے مقدمات ہیں لیکن وہ ’’پاکستان بنانے والوں کی اولاد‘‘ کے ساتھ پاکستان میں نہیں رہتے اور برطانیہ میں رہ کر رہی اپنے مُنہ بولے بڑے بھائی طاہر اُلقادری کے ’’انقلاب‘‘کی حمایت کرتے ہیں پاکستان میں ’’توہینِ رسالتؐ‘‘ کی سزا موت ہے لیکن سرکارِ دو عالمؐ کے حوالے سے جُھوٹا خواب بیان کرنے والے طاہر اُلقادری پر ’’توہینِ رسالتؐ‘‘ کا مقدمہ چلانے کیٗ کسی بھی ادارے میں جُرأت نہیں ہے ؟۔ شاید یہ سب کیینڈین حکومت سے ڈرتے ہیں ۔ جنرل ضیاء اُلحق اور اُن کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ’’مقدّس ہاتھوں ‘‘ پر بیعت کرنے والے چودھری برادران بھی ’’ القادری انقلاب‘‘ کا ہر اوّل دستہ ہیں۔ اور دو چھوٹی مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی طاہراُلقادری کو آسمان پر چڑھا رہے ہیں۔
’’جناب عمران خان کا معاملہ مختلف ہے ۔ اُن کے پاس صِرف پاکستانی شہریت ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو بنانے ٗ سنوارنے اور منظم کرنے میں بہت محنت کی ہے۔ 11 مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں اُن کی پاکستان تحریکِ انصاف (ووٹوں کے لحاظ سے) دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری لیکن اُسے قومی اسمبلی میں صِرف 35 نشستیں مِل سکیں۔ خیبر پختونخوا میں اگر وزیرِ اعظم نواز شریف ’’ حکومتوں کے سدابہار اتحادی ‘‘ مولانا فضل اُلرحمن کا مشورہ مان لیتے تو وہاں بھی مسلم لیگ ن اور اُس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت بن سکتی تھی۔ پختونخوا میں جناب پرویز خٹک کی حکومت عوام کے لئے کچھ خاص اس لئے نہیں کرسکی کہ طالبان سے ہمدردانہ رویّے کے باوجود خیبر پختونخوا کے لوگ دہشت گردی کا شکار رہے۔
عمران خان اور اُن کی پارٹی نے 11 مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے نتائج کو ’’تحفظات کے ساتھ‘‘ تسلیم کر لِیا تھا۔ پھر اُن کی طرف سے چار انتخابی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کِیا گیا ٗ جِسے تین مسلم لیگی وزراء قومی اسمبلی کے ایوان میں تسلیم بھی کر لیا لیکن اِس وعدے کو نبھانے میں دیر لگائی گئی۔ طاہراُلقادری لڑکپن سے ہی غُصّے کی سیاست کرتے ہیں لیکن ٗ 20 سال تک سیاست کرنے کے بعد بھی عمران خان ’’منہاج اُلقادری‘‘ ایجنڈے پر کیوں چل رہے ہیں؟ طاہر اُلقادری اور اُن کی عوامی تحریک کا کوئی رُکن ’’موری ممبر‘‘ بھی نہیں جبکہ عمران خان تو باقاعدہ ٗ منتخب اور مُستند پارلیمنٹیرین ہیں؟۔ پھر منتخب وزیرِ اعظم سے استعفیٰ طلب کرنا اور قومی اسمبلی کی صف لپیٹ دینا کہاں کی پارلیمانی روایت ہے؟۔
طاہراُلقادری تو آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ وہ تو اپنے کارکنوں کو کہہ سکتے ہیں ’’ میں شریف خاندان کے افراد کو مُلک سے بھاگنے نہیں دوں گا اور اگر مجھے قتل کردیا جائے ٗتو شریف خاندان کو بھی قتل کردیا جائے‘‘۔ اِسی طرح کی گفتگو جناب عمران خان بھی کرتے رہتے ہیں۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اِس صورتِ حال کو’’عمران اُلقادری گٹھ جوڑ‘‘ کا نام دِیا ہے۔ محروم طبقے ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ تو کِیا ہی کرتے ہیں۔ ہندوئوں کی رسم کے مطابق شادی کے وقت (پھیروں سے پہلے ) دُلہا اور دُلہن کے پلّوئوں کو جو گانٹھ دی جاتی ہے اسے ’’گٹھ بندھن‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں جس حکومت کو ’’مخلوط حکومت‘‘ کہا جاتا ہے اُسے بھارت میں ’’ گٹھ بندھن سرکار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس لحاظ سے عمران خان اور طاہراُلقادری کے’’گٹھ بندھن‘‘ کا مقصد وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت کو ختم کرانا ہے لیکن طاہراُلقادری تو اقتدار میں آکر ’’ ہلاکو خان ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اِنفارمیشن گروپ کے ایک سینئر رُکن اور سب سے زیادہ ’’پڑھا کو‘‘ پروفیسر محمد سلیم بیگ نے مجھے 4/3 ماہ پہلے ایک کتاب پڑھنے کو دی تھی جس کے شروع اور آخر کے صفحات پھٹے ہوئے تھے۔ کتاب میں امریکہ کے ایک مذہبی ٗ جنونی ( کمیونٹی لیڈر) "Jim Jones" کا تذکرہ ہے۔ 31 مئی 1931 ء کو بھارت میں پیدا ہونے والا جم جونز "People's Temple" (عوامی گرجا) کا بانی چیئر مین تھا۔ جو اپنے پَیروکاروں سے اپنے مخالفین کو قتل کرا دیتا تھا۔ اُس نے اپنے پَیروکاروں کو منشیات کا عادی بنا دیا تھا اور یقین دِلا دیا تھا کہ ’’ خُدا کی بادشاہت‘‘ (جنت) کا حق دار بننے کے لئے خود کُشی کرنا عبادت ہے۔ نومبر 1978 ء میں جم جونز کے 909 مریدوں نے ٗ لاتعداد لوگوں کو قتل کردیا تھا جن میں300 بچے بھی شامل تھے ۔ جِم جونزنے بھی خود کُشی کر لی تھی۔ مجھے تو"People 's Movement" (عوامی تحریک ) کے علّامہ طاہراُلقادری جِم جونز کا ’’دوسرا جنم‘‘ لگتے ہیں۔مجھے بہت دُکھ ہُوا کہ ٗ جناب عمران خان اپنے راستے پر چلنے کے بجائے ’’منہاج القادری‘‘ یجنڈے پرچل رہے ہیں!۔