الطاف حسین اور نظریۂ پاکستان

Aug 15, 2015

ڈاکٹر ایم اے صوفی

الطاف حسین نے کراچی میں تعلیم حاصل کی، زمانہ طالبعلمی میں یونیورسٹی میں بطور طالب علم لیڈر مشہور ہوئے اور بعد میں مہاجر قومی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ ایک نئی طرز کی تحریک تھی۔ جو مہاجر طلباء او دیگر لوگوں میں مقبول ہوگئی اور الطاف حسین اس تحریک کے مسلمہ لیڈر ہوگئے 23سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ چند سال قبل دہلی گئے تو اپنے خطاب میںنظریہ پاکستان پر حقائق کیخلاف اظہار کر کے مسلمانان ہند اور پاکستان کے جذبات کو مجروح کیا، زعماء پاکستان، بانی پاکستان جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے نجات دلائی اور سیاسی میدان میں اپنے بالمقابل کانگریسی لیڈروں اور انگریز کی سازش کا مقابلہ کیا، پاکستان کیلئے نظریاتی اصولوں کی جنگ لڑی مسلمانوں کی تاریخی سیاسی اور معاشرتی پہلوئوں کو اپنے دلائل سے اجاگر کیا۔ ان پر الطاف حسین نے حملہ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی سیاسی بصیرت اور روشن خیالی سے برصغیر کے مسلمانوں کے پاس جا کر مسلم لیگ کا پیغام دیا۔ مسلمانوں کو باور کرایاکہ مسلمان جدا قوم ہیں۔ ان کا تشخص ہر لحاظ سے جدا اور ہندو قوم سے علیحدہ ہے۔ رہن سہن، بیاہ شادی، لباس، عبادات، یقین، ایمان، سب کچھ جدا ہیں۔ لہٰذا ان حقائق کی روشنی میں جدا قوم کا وطن علیحدہ ہونا چاہئے۔ جس کا مدعا علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد 29 دسمبر 1930ء میں دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان ہو، تاکہ مسلمان اپنے تمدن، مذہب، زبان اور تہذیب کی حفاظت کرسکیں۔ کس قدر ہندو کانگریس، مسلمان نیشنلسٹ اور انگریز تقسیم ہند، یعنی بھارت اور پاکستان کے بننے کیخلاف تھے۔ یہ دو قومی نظریہ کی قوت تھی۔ یہ قومی تحریک تھی اس میں فکر مسلمان تھی۔ وسائل، ہمت اور نظریہ مضبوط تھا۔ قائداعظمؒ ڈٹے رہے۔ جس بناء پر دنیا کے نقشے میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا اضافہ ہوا۔ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ ملک آزاد ہے۔ زر خیز و شاداب ہے۔
اب الطاف بھائی حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں وہ تو اپنے آپ کے سایہ شخصیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ماضی میں الطاف بھائی پاکستان اور پاکستانی جھنڈے کی بڑی قدر کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نواز شریف صاحب 16 اپریل 1993ء سے 6 نومبر 1996ء تک وزیراعظم پاکستان تھے اس دوران کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ اس میں لوگوں نے مختلف جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ الطاف بھائی سٹیج پر آئے حاضرین کو خطاب کیا اور قومی اسلامی، اتحاد اور یگانگت کی خاطر آواز لگائی ’’میں حکم جاری کرتا ہوں، سارے جھنڈے نیچے کردئیے جائیں صرف ایک جھنڈا پاکستان اوپر رہے،سبز پرچم کے سوا آنا فاناً سارے جھنڈے غائب ہو گئے۔اس وقت الطاف صاحب کو پاکستان کی وفاداری، اعانت اور قومی معاملات کو سدھارنے کی خواہش تھی۔ اس جلسہ میں نواز شریف بھی موجود تھے۔
الطاف بھائی اب غیر ملک میں رہ رہے ہیں، زندگی میں بے چینی آگئی، تنہائی کی وجہ سے انکے ذہن میں تبدیلی عجیب انداز سے پیدا ہوگئی۔ ان کا شعور قومی جذبے سے محروم ہو گیا۔ وہ تاریخی حقائق پر جملے کسنے لگے حالانکہ ان کو پوری تاریخ کا علم ہے کہ اقبالؒ نے 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کا ایک آزاد مسلم ریاست کا نظریہ احساس پیش کیا بعد میں انکی تحریریں، بیانات تسلسل کیساتھ خطبہ الٰہ آباد کا مرکزی تصور بیان کرتے رہے۔ وہ باقاعدہ قائداعظمؒ کو 1936ء سے 1937ء تک اسی سیاسی ضرورت کیلئے خطوط لکھتے رہے۔ اس سے قبل بھی آپ نے قائداعظمؒ کو لندن میں خطوط لکھے کہ آپ واپس وطن آئیں مسلم قوم کو آپ کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔ وہ ہمیشہ سے محمد علی جناحؒ کے افکار، سیاسی بصیرت کے مداح رہے ۔
علامہ اقبالؒ باقاعدہ طور پر قائداعظمؒ کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ وہ مشورے دیتے تھے۔ پنجاب مسلم لیگ اور پنجاب کی سیاست کے بارے میں قائداعظم کو تفصیل کے ساتھ بتاتے تھے۔ انکی نعوذ باللہ قائداعظمؒ سے کبھی رقابت نہیں ہوئی۔ یہ شوشہ صرف الطاف صاحب کا ہی ہے۔ الطاف صاحب کی یہ سوچ، قومی سوچ اور پاکستان کے خلاف ہے۔
ایسی سوچ کا اظہار کر کے الطاف بھائی اپنے پائوں پر خود کلہاڑی کی کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ پاکستانی شہریت رکھتے ہوئے، اپنے ماضی کے اعمال کو دیکھتے ہوئے نیت کو جھٹلانا ہمارے لئے پریشان کن ہوگیا۔ کیا انڈیا یا ترا نے انکے پاکستان کے بارے میں احساسات، جذبات، فوائد، لیڈر شپ، پبلسٹی ضائع کردی؟۔ اسکی دو وجوہات ہوتی ہیں۔
نفسیاتی رد عمل: چونکہ الطاف حسین ملک سے باہر ہیںاگر ملک میں ہوتے تو حکمران ہوتے، مگر پردیس میں انکے ذہن میں خلفشارپیدا ہو گیا۔ جس نے ان کی اہلیت وصلاحیت کو نقصان پہنچایا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ وہ لندن کے کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کریں کہ وہ حقیقت اور اصولوں سے کیوں منحرف ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان پر رحم آتا ہے کہ وہ ذہنی خلفشار میں مبتلا ہیں۔اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا رد عمل موسم کی تبدیلی سے بھی ہوتا ہے۔ گویا الطاف بھائی اب جوانی کے جوش سے گزر چکے ہیں۔ ان کی ہوش اچھی سوچ میں تبدیل ہونی چاہئے تھی کہ وہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ اور کارکنا ن تحریک پاکستان نظریہ پاکستان کو دعائیں دیتے کہ ان زعماء کی سعی و کوشش سے پاکستان بن گیا۔ انکے والدین ہجرت کر کے کراچی تشریف لائے اور قومی مہاجر موومنٹ کے لوگوں کو پاکستان میں اتنے بڑے عہدے، دولت، عزت، مقام و حیثیت میسر آئی۔
اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا، تو ہندوستان دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتا،محترم الطاف صاحب یا دوسرے لوگ ہندوستان میں کیا ہوتے؟ جو ہوتے مگر یہ نہ ہوتے، مقابلہ کرناجرم نہیں اس وقت ہندوستان میں 18 کروڑ مسلمان ہیں مگر جو مقام و حیثیت الطاف بھائی کی پاکستان میں بن گئی ہے۔ ایسا خوا ب بھی ان کو متحدہ ہندوستان میں نہ آتا بلکہ ایسی پوزیشن کے خواب کے منتظر رہتے۔ انکے وہی حالات ہوتے جس طرح ہند میں باقی لوگوں کے ہیں۔ آپ ذہن نشین کرلیں،پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے لہٰذااب آپ سوچیں کہ ہم اس کو مضبوط اور ناقابل تسخیر کس طرح بنا سکتے ہیں۔

مزیدخبریں