قصور میں بچوں سے زیادتی پر تھانہ گنڈا سنگھ والا میں مزید 11 مقدمات درج کر لئے گئے۔ سندھ کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بھی متفقہ مذمتی قرار داد منظور۔ 12 ملزمان کو تفتیش کیلئے لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے قریب معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے دلدوز واقعات ہوئے۔ عوام نے اس پر غم و غصے کا اظہار کیا لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کو ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ وہ قصور جا کر متاثرین کے دکھوں پر مرہم رکھیں۔ میاں شہباز شریف تو ہر کسی جرم پر ایکشن لے کر اگلے دن میڈیا کے ساتھ وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن نہ جانے وہ قصور جانے سے کیوں گریزاں ہیں۔ انہیں اس پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا کر فی الفور کوئی سخت ایکشن لینے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ لیکن حکومت کوئی ایسا اقدام بھی نہیں اٹھا رہی۔ جبکہ بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیوں نے اس پر مذمتی قرار دادیں منظور کی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو حسین والا خود جا کر اس واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ حکومت نے جے آئی ٹی تو تشکیل دے دی ہے۔ لیکن اسکی رپورٹس پر برق رفتاری سے عملدرآمد کرتے ہوئے مجرمان کو قرار واقعی سزا بھی دینی چاہئیے ورنہ عوام مزید مشتعل ہونگے۔