برصغیر کے کروڑوں مقہور، مجبور اور بے بس "مسلمانوں" کیلئے تشکیل دیا گیا "اسلامی جمہوریہ پاکستان" بد قسمتی سے جو نہ کبھی اسلامی رہا ہے اور نہ کبھی جمہوری ٗ آج اڑسٹھ سال اور ایک دن کا ہو گیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں اڑسٹھ سال کچھ زیادہ نہیں ہوتے لیکن جذبے جوان اور نیتیں صاف ہوں تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں اور اتنی مختصر سی مدت میں اگر راکھ کے ڈھیر میں چنگاری بھڑک اٹھے تو الائو کے دھوئیں سے چین اور جاپان جیسے اقتصادی بھوت نمودار ہو جاتے ہیں اور ان کی طلسماتی ترقی اقوام عالم کی نیندیں حرام کر دیتی ہے اور اگر کوئی پاتال میں گرنا چاہے تو ہم سے اچھی مثال اور کیا دی جا سکتی ہے۔ برصغیر کے ہم مسلمان جو مذہبی کساد کے باوجود اکثریت میں تھے لیکن فرقہ پرستی کی وجہ سے مذہب کی بنیاد پر متحد نہ ہو سکے اور نہ ہی ہم زبان کی بنیاد پر متحد ہو سکے کہ یہاں بھانت بھانت کی بولیاں تھیں اور ہیں جنہیں اشرافیہ خاطر میں ہی نہیں لائی۔ ہم موم کی طرح مڑتے گئے اور بہ آسانی فرقوں ٗزبانوں اور علاقوں میں بٹ گئے۔ قحط الرجال کی یہ انتہا رہی کہ ہمارے درمیان کوئی ایک بھی ایسا نہ رہا جو ہمیں فرقہ پرستی کی خود فریبی سے نکال کر خطوں اور زبانوں کی اساس پر کسی متفقہ قومی میثاق کی طلائی زنجیر میں باندھ کے ٗکسی خوب صورت زاویہ فکر میں جوڑ جکڑ کے رکھتا اور ہم باہم مل کر ہی رہ لیتے لیکن سبب سے کوئی بڑا مسبب الاسباب بھی ہے جس نے ہمیں فرقوں ٗ زبانوں ٗ خطوں اور مفادات کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے رہنے پر مامور کیا اور ہم باہم شکر رنجی پہ راضی بہ رضا ہو کر ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہجوم ہی رہے ٗ ایک قوم نہ بن سکے۔ہم نہ چین اور جاپان بن سکے اور نہ ہی ترکی کہ جس نے زبان اور ریاستی سطح پر لادینی نظریہ اپنا کر فلک کو چْھو لیا۔ ہمارا یہ حال ہوا کہ "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اْدھر کے رہے نہ ادھر کے رہے"۔ اسی جذباتی اور غیر فطری تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیام وطن کا یہ خواب ربع صدی میں ہی چکنا چور ہو گیا اور بنگالیوں نے ہمیں "فقیرانہ آئے صدا کر چلے ٗمیاں خوش رہو ہم دعا کر چلے" کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ یہ سلسلہ رکا نہیں ٗ وفاق پاکستان کے سر پر علیحدگی کی تلوار آج بھی لٹک رہی ہے۔ فاٹا فرنٹئیر میں دہشت گردی کی آگ سے تن بدن جلا جا رہا ہے ٗبلوچستان میں علیحدگی کے نعروں سے پہاڑ لرز رہے ہیں۔ سندھ میں بھی وفاق سے الگ ہونے کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ پنجاب بھی باہمی تضادات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اورسرائیکی خطے کے لوگ شہباز شاہی سے بیزار ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973 کے آئین نے کچھ دن تک وفاق کے بیمار جثے کو زندگی کی سانسیں ادھار دے دیں لیکن پے در پے ترامیم اور غیر جمہوری حکومتوں کے تجربوں نے اسے بھی غیر موثر کر کے رکھ دیا۔ ہم اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کو پارلیمان کی فتح قرار دیتے ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان ترامیم سے وفاق کے بے جان جسم میں زندگی کی حرارتیں پیدا نہیں کی جا سکیں۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ حالات کے تقاضوں نے دیوار برلن تک گرا دی ہم اپنی نفرتوں اور خود فریبیوں کو لگام نہ سکے۔ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش، قومی اداروں کے مابین بالا دستی کی مہم جوئی نے ایک نئی دستور ساز اسمبلی اور ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت دو چند کر دی ہے جو بھنور میں گھری وفاق کی کشتی کو ڈوبنے سے بچا لے۔
مجھے علم ہے ہم سب تمام تر خود غرضیوں کے باوجود اس ملک سے محبت کرتے ہیں ٗمیں کسی کی نیت اور ملک سے محبت جانچنے کی جسارت نہیں کر سکتالیکن اہل سیاست اور اہل اقتدار کو مشورہ دینے کا حق تو رکھتا ہوں۔ میاں نواز شریف ٗ آصف علی زرداری ٗ الطاف حسین ٗعمران خان سمیت پوری سیاسی اور مذہبی قیادت ٗ جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس پاکستان اگر عوام سے مخلص ہیں اور اس ملک سے محبت کرتے ہیں تو آگے بڑھیں اور حالات کی سنگینی اور سچائی کا کما حقہ ادراک کرتے ہوئے ایک دلیرانہ فیصلہ کریں اور ہجوم کو قوم کا روپ دینے کے لئے نئی دستور ساز اسمبلی کیلئے راہ ہموار کریں جو وفاق پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک جامع اور قابل قبول نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دے کر قائد اعظم کے پاکستان کے بکھرتے موتیوںکو ایک مالا میں پرو دے۔ اور اس سے بہتر حالات آپ کو کبھی نہیں ملیں گے۔ لوگ اس ملک کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور اسکی مثال وہ مناظر ہیں جوتیرہ اگست کی شب اور چودہ اگست کے روزملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی کی سڑکوں اور چوراہوں پر دیکھنے کو ملے ٗان مناظر کو نگاہیں ترس گئی تھیں ٗ آج کا منظر ہی الگ تھا ٗسبز ہلالی پرچموں کی بہار ٗ موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان ٗ محو رقص بچے ٗکاروں میں ٹھنسے کنبے ٗ کوچوں میں گونجتے ملی نغمے "یہ وطن ہمارا ہے" یہ اس ملک کا ٗ کراچی کا نیا چہرہ ہے۔ اس کا کریڈیٹ جنرل راحیل شریف کو دوں یا نواز شریف کو یا آصف علی زرداری ٗ عمران خان یا الطاف حسین کو مگر بالعموم ملک کا اور بالخصوص کراچی کا یہ چہرہ بہت دنوں بعد سامنے آیا ہے اور اسے برقرار رہنا چاہئے۔
1973ء کا آئین اپنے عہد کی عظیم دستاویز تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ٗ قومی سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے لیکن ہم نے بلی کے سامنے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں ہیں۔ ہمیں اب آنکھیں کھول کر زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہئے اور آنے والی مشکلات کے حل کے لئے پیش بندی کر لینی چاہئے ورنہ بنگال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ملک کو درپیش قومی سوال کا جواب ایک نئے عمرانی معاہدے کی صورت ہی میں عوام کو مل سکتا ہے۔اگر اس ملک کے عوام مطمئن نہ ہوئے تو پھر اس ملک کا اللہ حافظ ہے۔