یہ کیسا جشن آزادی ؟

گزشتہ روزپوری قوم جشن آزادی منانے میں مصروف رہی، پرچم کشائی کی تقریبات ہوئیں، فضا ملی نغموں سے گونجتی رہی، گھروں پر قومی پرچم لہرائے گئے۔ مگر قوم کو آزادی کی نعمت عطا کرنے والے قائد کی روح تڑپتی رہی۔ کیا قائد کی روح تنہا تڑپی ہو گی؟ ہزاروں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوان لڑکیوں کی روحیں کیا نہیں تڑپتی ہونگی؟ کیا مائوں کے پیٹ سے نکال کر نیزوں پر اچھالے گئے بچوں نے قائد سے آکر سوال نہیں کئے ہوں گے کہ ہمارے لہو کا خراج اس لئے لیا گیا تھا کہ آج پاکستان میں معصوم بچوں کیساتھ جانور سے بھی بدتر سلوک کیا جائے؟ عظیم مائوں نے سوال نہیں کیا ہو گا کہ ہم نے اپنے جوان بیٹے اور بیٹیاں اس لئے قربان کی تھیں کہ آج انکے بہن بھائیوں کی نسلیں درندگی اور ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں؟ یقیناً ہر سانحہ پر ملک عزیز کیلئے قربانی دینے والے ہزاروں افراد کی روحیں مزار قائد کے احاطے میں جمع ہوتی ہوں گی اور شام غریباں بپا ہوتی ہو گی۔ اس دفعہ بھی 14 اگست کو بے ضمیر پاکستانیوں نے قائد کی روح کو ایک بہت بڑے سانحہ کا دکھ دیا ہے۔ مجھے یقین ہے اس سانحے کی خبر پہنچنے پر مزار کے درو دیوار بھی ضرور لرز اٹھے ہوں گے۔ یہ بات کسی سے بعید نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کون لوگ کرتے ہیں۔ کون لوگ انھیں پالتے اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کوئی فقیر کسی جگہ کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک وہ متعلقہ تھانے میں موجود افسروں اور اس علاقے کے بھیک مافیا سے باقاعدہ اجازت نہ لے لے اور انکے حصہ جات مقرر نہ ہو جائیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چھ سال تک بچوں سے زیادتی ہوتی رہے اور علاقے کی پولیس، وہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے بے خبر رہے ہوں؟ حکومتی مشیروں کی بیان بازی اور واقعہ کو زمینی تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش سے بھی بہت سے پس پردہ حقائق سامنے آتے ہیں۔ تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی فیصلہ سنا دینا اور مجرموں کا دفاع کرنا صاحبان اقتدار کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ضروری ہے توپولیس اور جے آئی ٹی وغیرہ کی تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ ایک صاحب نے یہاں تک فرما دیا کہ ایسے واقعات ہر صوبے میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ان موصوف نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً وہ اسکے بارے میں معلومات بھی رکھتے ہونگے۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ انھیں طلب کرتی اور اس سنجیدہ بیان پر ان سے معلومات لیکر تمام صوبوں میں ہونیوالے اس گھنائونے جرم کا پردہ فاش کرتی۔ اگر ایسے واقعات ہر صوبے میں ہوتے ہیں تو یہ وفاقی حکومت کی بھی نا اہلی ہے کہ وہ یا تو اس سے بے خبر ہے یا جان بوجھ کر اسکو نظر انداز کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کسی بھی جماعت کا ہو وہ پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے اس لئے رولنگ پارٹی پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے اسے تمام صوبوں میں ہونیوالے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ نہ کہ اپنے من پسند صوبے میں ہونیوالی خرابی کے دفاع میں دوسرے صوبوں پر الزامات لگا دیے جائیں۔ اس سے صوبائی تعصب فروغ پاتا ہے۔ حیرت ہے کہ مجرموں کے اقبال جرم اور ویڈیوز میں ان مجرموں کی واضح موجودگی اوران کی گرفتاری کے باوجود مجرم کے ثبوت اور مجرموں کی نشاندھی کیلئے کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔ جب ویڈیوز میں ثبوت موجود ہیں، اقبال جرم بھی ہو چکا اور پاکستان کے جید علما کرام کے فتوی بھی آچکے ہیں تو سزا میں تاخیر مجرموں کی اعانت کے زمرے میں شمار ہو گی۔ کیا کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹائون کے ورثا کے ساتھ جو حال کیا قوم کو نہیں معلوم؟ ہمارے ہاں کمیشن جرم پر مٹی پائو سکیم کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ سانحہ ماڈل ٹائون پر بنائے گئے جے آئی ٹی کے فیصلہ پر دنیا دیکھ چکی ہے۔ سانحہ قصور پر بھی بنائے گئے کمیشن کا نتیجہ بھی صاحبان اقتدار کے بیانات کی روشنی میں صاف نظر آرہا ہے کہ اصل حقائق خفیہ فائلوں میں دب کر رہ جائینگے اور قوم ان سے کبھی آگاہ نہیں ہو سکے گی۔ قوم کو کسی نئے اور بڑے سانحہ میں الجھا دیا جائیگا۔ یوم آزادی کے موقع پر ملٹری کورٹس میں پشاور سانحہ اور سانحہ صفورہ کے مجرموں کو سزا سنائے جانے پر لوگ بہت خوشی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اصل خوشی تب ہو گی جب ان مجرموں کو لٹکا دیا جائیگا۔ مجرموں کو اپیل کا حق بھی ملٹری کورٹس میں ہی دیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اس طرح مقدمات طوالت کا شکار نہیں ہوں گے اور نہ ہی مجرم کسی خوف اور دبائو کے تحت رہا کیے جا سکیں گے۔
پولیس کی تفتیش اور موجودہ عدالتی نظام کی طرف سے تحفظات کا شکارعوام سانحہ قصور کے مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے کیس کو فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا شدید مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ تجربات کی روشنی میں عوام یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے۔ حکومت اگر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے میں مخلص ہے تو اسے اس مطالبہ کو قبول کرنا ہوگا۔ سانحہ قصور کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ ہمارے بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ بچوں کیخلاف بڑھتے ہوئے جرائم سے ان بچوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انکی جسمانی نشونما، ذہنی اور قلبی آسودگی، علمی ترقی اور تحفظ کیلئے سخت قوانین بنا کر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ یہ ذہنی بیماری ڈینگی سے زیادہ خطرناک ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے ذہنی بیمار بھیڑیوں کی نشاندھی اور ان سے بچائو کیلئے ڈینگی کی طرح مئوثر مہم کا سکولز اور کالجز کی سطح پر آغاز کرے۔ والدین اور بچوں میں آگاہی کیلئے سیمینارز منعقد کروائے ۔ نفسیاتی مسائل سے آگاہی اور ایسے لوگوں کی نشاندھی بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ آپس میں سیاست کی بجائے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے اس واقعے پر سنجیدگی اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضروت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...