جمعتہ المبارک کے روز ہم نے بانیان پاکستان اقبال و قائد کے ودیعت کردہ ملک خداداد کا 69 واں یوم آزادی منایا تو بالخصوص قوم کے قائدین کی جانب سے ”آزادی“ کے سیکھے ہوئے اسباق شتر بے مہار آزادی سے بھی کسی اگلے مرحلہ کی خبر دیتے نظر آئے۔ بحیثیت مجموعی ہم نے اخلاقی اقدار میں تو فی الواقع شتر بے مہار آزادی حاصل کر لی ہے۔ اس لئے کوئی اخلاقی گراوٹ ایسی نہیں جسے عبور کرنے میں ہم نے کوئی حجاب محسوس کیا ہو۔ قصور کے سانحہ میں پولیس، انتظامیہ، حکمرانوں اور حکمران اشرافیہ طبقات کی ڈھٹائی پر مبنی ”صفائی“ سے استعفوں کے آئینی تقاضے میں اقتدار کے ایوانوں میں صریحاً ہونے والی بے آئینی من مانی تک ملک خداداد کے یوم آزادی نے ہمیں آزادی کے بہت سے اسباق دکھا اور سمجھا دیئے ہیں۔ اس سے جھوٹ کی عملداری اور منافقت و ریاکاری کی سرفرازی کے جھنڈے بلند ہو رہے ہیں تو ملک خداداد کے پیارے پرچم، جس کے لئے ہم ”وہ پرچموں میں عظیم پرچم“ کا تصور باندھ کر اپنے تفاخر کا اظہار کرتے ہیں، کو سرنگوں کرنے کا بھی تو دھٹائی، بے حیائی اور منافقت و ریکاری کے جھنڈے بلند کر کے ہم خود ہی اہتمام کر رہے ہیں۔
آج میں ڈھٹائی بے حیائی کے شکاہکار اپنے کلچر کے صرف اس ایک پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں جو اقتدار کے ایوانوں میں اور منتخب فورموں پر بے آئینی من مانی کے جلوے دکھاتا آئین و قانون کی عملداری کو شرماتا نظر آتا ہے۔ مجھے تو اس ڈھٹائی بے حیائی پر حیرت کا اظہار بھی ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ جھوٹ کو سچ پر حاوی کرنے والے اس کلچر میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے ”آفاقی“ اصول کو تسلیم نہ کرنے والا پاگل ہی ٹھہرے گا۔ اگر کسی کو غیرت نہیں اور بے آئینی من مانی والی بے غیرتی پر حیرت نہیں تو اس پر جلنے کڑھنے کی بجائے دل کے پھپھولے ہی کیوںنہ پھوڑ دیئے جائیں.... تو جناب، سن رکھئے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے آئین و قانون کے نام نہاد رکھوالے اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کی ”بکل“ مارے آئین و قانون کا پھلکا اڑائے چلے جا رہے ہیں اور اب میں اس پر بھی حیرت کا کیا اظہار کروں کہ انہیں اپنی بے آئینی من مانی پر احتساب و سزا کا بھی کوئی دھڑکا لاحق نہیں۔ شائد وہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ”جو بھی ہے، بس یہی اک پل ہے“ سو پوری کر لے آرزو۔
ارے بھائی صاحب! آپ کو آئین کی دفعہ 64 کی شق ایک وارا نہیں کھا رہی تو آپ نے پہلے بھی تو 18 ویں سے 21 ویں آئینی ترمیم تک اپنی اپنی مفاداتی ترامیم کرا لی ہیں۔ آپ کو کسی نے روکا تو نہیں۔ یہ آپ کا آئینی اختیار ہے۔ آپ دفعہ 64 میں بھی من مانی ترمیم لا کر اسے موم کی ناک بنا لیں مگر جب تک آئین کی کتاب میں دفعہ 64 اپنی موجودہ شکل کے ساتھ ہی موجود ہے۔ آپ اس کے تقاضے نہیں نبھائیں گے تو آئین سے سرکشی کے مستوجب سزا ٹھہریں گے مگر آپ تو آئین کو دھر رگڑا کی نیت باندھے بیٹھے ہیں۔ سو کیفیت ”مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر“ والی بن گئی ہے۔ پھر اس ”دھر رگڑا“ کلچر میں....
جھوٹ کو کیوں جھوٹ جانیں، سچ سمجھ کر بولئے
جھوٹ سے گر کام چلتا ہو تو اکثر بولئے
جھوٹ کی اس عملداری میں میرے پاس آئین کی پاسداری کا تقاضہ کئے جانے کی کوئی گنجائش تو نہیں رہی مگر بھائی صاحب ”نہ بولے تے مر جاواں گے“ چنانچہ میں گزشتہ سال ستمبر میں تحریک انصافکے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے پیش کئے گئے استعفوں کے وقت سے ہی بولے چلا جا رہا ہوں۔ بے شک نقارخانے میں طوطی کی آواز سننے کا یہاں کوئی کلچر موجود نہیں ہے مگر اپنے حصے کی شمع جلاتے تو رہیے اور یہ باور کراتے تو رہیے کہ آئین کی دفعہ 64 کی شق ایک تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے ارکان قومی و پنجاب اسمبلی پر ان کے استعفے متعلقہ، سپیکروں کے دفاتر میں موصول ہوتے ہی لاگو ہو گئی تھی چنانچہ ان سارے مستعفی ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کی نشستیں اسی وقت خالی ہو گئی تھیں جبکہ اب سینٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی مجموعی 83 نشستیں بھی ایم کیو ایم کے متعلقہ ارکان کے استعفے موصول ہوتے ہی خالی ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان نشستوں پر بیٹھے ہیں یا بیٹھیں گے تو یہ سراسر بے آئینی من مانی ہو گی جو خود ان منتخب ایوانوں کے محافظین (چیئرمین سینٹ اور سپیکروں) کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کو تو شائد مرنا بھی یاد نہیں رہا اس لئے انہیں آئین کی دفعہ (1) 64 تو کجا اپنی اسمبلی کے رولز مجریہ 2007ءکی شق (2) 43 بھی یاد نہیں جو انہیں پابند کرتی ہے کہ آئین کی دفعہ (1) 64 کے تحت موصول ہوئے استعفے کو انڈہ بنا کر وہ اس کے اوپر بیٹھنے کے قطعاً مجاز نہیں ہیں بلکہ یہ استعفیٰ یا استعفے انہوں نے اپنے ہاﺅس کی متعلقہ نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمشن کو بھجوانے ہیں مگر منافقت ہے کہ ڈھٹائی کے ڈھنڈورے پیٹ رہی ہے۔ جاوید ہاشمی ان کے روبرو کھڑے ہو کر اپنی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کریں تو وہ یہ استعفی منظور کرنے میں پلک جھپکنے کی بھی دیر نہ لگائیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی ایک رکن قومی اسمبلی اپنی نشست سے استعفیٰ دیں تو اس کی منظوری کا مرحلہ بھی فی الفور طے ہو جائے مگر پی ٹی آئی کے سارے مستعفی ارکان سپیکر چیمبرز میں جمع ہو کر اپنے مستعفی ہونے کی دہائی دیتے رہیں تو بھی سپیکر کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ اسی طرح متحدہ کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار ہاﺅس کے اندر کھڑے ہو کر اپنے اور متحدہ کے دوسرے ارکان کے استعفوں کے اعلان کریں اور اس کے ساتھ ہی یہ سارے ارکان خود جا کر سپیکرز چیمبرز میں اپنے استعفے جمع کرا دیں مگر سپیکر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر کی تصویر بنے بیٹھے رہیں۔ ارے یہ ہاﺅس اور آئین کے رکھوالے ہیں یا اپنے پارٹی قائد کے متوالے؟ وہ اپنے ہاﺅس میں 55 کے قریب خالی نشستوں پر اجنبیوں کو بٹھا کر انہیں ہاﺅس کا حصہ قرار دے رہے ہیں تو فی الواقع اپنے لئے آئین کی دفعہ 6 والے پھندے کو دعوت دے رہے ہیں۔
مجھے حیرت ہے حالانکہ اقتداری بھائیوالوں کی ڈھٹائی کے آگے اس حیرت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور سندھ اسمبلی میں حکمران پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اور سپیکر سمیت سب کے سب مفاہمتوں، منافقتوں، مفادات میں لپٹے آئین کو دھر رگڑا دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ رضا ربانی کا 21 ویں آئینی ترمیم کے لئے ووٹ دیتے وقت ضمیر کی خلش پر آنسو بہانا بھی سب ڈرامہ بازی ہی نظر آتا ہے کہ آج جمہوریت کو بچانے کے بھونڈے فلسفہ کے تحت سارے اقتداری بھائیوال بشمول سید خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، اسحاق ڈار حتی کہ محمود اچکزئی بھی آئین کو دھر رگڑا دینے کی منصوبہ بندی میں صف اول کے شکاری بنے بیٹھے ہیں....
کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بھئی ہمارے ملک خداداد کے جشن آزادی کا یہ سبق کافی نہیں؟ پھر ”ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے“۔