دو قومی نظریہ: یعنی تشکیل پاکستان

تاریخی اسناد کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حصول کے لیے جتنی بھی فکری اور عملی کوششیں کی گئیں، ان سب کی بنیاد صرف ایک تھی اور وہ اسلام تھا، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جب بھی اور جہاں بھی علیحدہ مملکت کے حصول کاتقاضا کیا تو وہ صرف اس لیے کیا کہ اس کے بغیر اسلامی قوانین کا اجراءجو مسلمانوں کی زندگی کا ضامن اور نصب العین ہے، ممکن نہیں۔ ہندوﺅں کی اکثریت اور مخالفت میں مسلمانوں کی ملی زندگی نہ تشکیل پاسکتی ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت کی ضمانت دی جاسکتی ہے جب کہ وہ خود تعداد میں دس کروڑ ہوں۔

11اگست 1947ءکے مندرجہ بالا خطبے کا مفہوم جیسا کہ بعض سیکولر ذہن کے دانشوروں اور قاضیوں نے سمجھا ہے، ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، بلکہ ان الفاظ سے قائداعظمؒ کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں گے اور ہندو یا مسلمان کسی اور مذہب کے لوگ پاکستانی باشندے ہونے کے ناطے سے آئینی طور پر یکساں حقوق و فرائض کے حامل تصور کئے جائیں گے۔ کوئی مخصوص مراعات حاصل نہیں ہوں گی جو اسے ہندو یا عیسائی سے متمایز کرسکیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی جمہوری اصول دین اسلام کی اصل و اساس ہے جو عدل و احسان پر مبنی انسانی معاشرہ کی تشکیل کرسکتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مذکورہ بیان کی وضاحت دنیا کے اس تحریر شدہ سب سے پہلے آئین سے ملتی ہے جو نبی اکرمﷺ نے مدینہ میں غیر مسلموں سے کیا تھا اور جو ”میثاق مدینہ“ کے عنوان سے معروف ہے۔ اس کی دفعات کامل رواداری‘ مذہبی آزادی اور حسن تعاون پر مبنی ہیں، یہی اسلامی معاشرہ کی اساس ہے۔حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے قائداعظمؒ سے دریافت کیا کہ وہ پاکستان میں کس قسم کی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا واحد ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصولی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارہ کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔“ قائداعظمؒ نے اسلام کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اس حقیقت سے سوائے جہلاءکے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہ حیات ہے، جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوج، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے، مذہبی تقاریب ہوں یا روزمرہ کے معمولات، روح کی نجات کا مسئلہ ہو یا بدن کی صفائی کا۔ اجتماعی حقوق کا سوال ہویا انفرادی واجبات کا، عام اخلاقیات ہوں یا جرائم، دنیاوی سزا کا سوال ہو یا آخرت کے مواخذہ کا، ان سب کے لیے اس میں قوانین موجود ہیں، اس لیے رسول نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن کریم ہمیشہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح اپنا مذہبی پیشوا آپ بن جائے۔“ اسلام بحیثیت مذہب کے دین و سیاست کا جامع ہے چنانچہ وہ ایک مسلمان کی زندگی کو ایک غیر مسلمان کی زندگی سے متمایز کردیتا ہے یہی اس کا تشخص ہے۔ اس کیفیت کا اظہار برصغیر کے مسلمان معاشرے میں نہایت موثر انداز میں ہوا جس کی مثال شاید کسی اور معاشرے میں نہ مل سکے۔ چنانچہ علامہ محمد اقبالؒ نے کہا ”شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔“
علامہ اقبالؒ کے لفظوں میں ”اگر اکبر کے دین الٰہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہوجاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہوجاتی لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان موجود نہیں کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت کوترک کرکے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کرلیں۔“ اسلام کا یہی تشخص تقسیم ہند کے نتیجے میں تاسیس پاکستان کا باعث بنا، چنانچہ اس عظیم تاریخی حقیقت کی طرف قائداعظمؒ نے پاکستان کی تاریخ کا صحیح تعین کرتے ہوئے 8 مارچ 1944ءکو فرمایا: ”پاکستان ہندوﺅں کے شائستہ یا غیر شائستہ رویے کا نتیجہ نہ تھا۔ یہ پہلے سے موجود تھا۔ صرف انہیں اس کا احساس نہیں تھا۔ ہندو اور مسلمان شہروں اور دیہاتوں میں باہم زندگی بسر کرتے ہوئے کبھی ایک قوم میں مدغم نہ ہوسکے۔ وہ ہمیشہ دو علیحدہ صورتوں میں رہے۔ پاکستان مسلمانوں کی حکومت سے بھی پیشتر اسی وقت معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا۔ جب کوئی ہندو مسلمان ہوتا تو اسے نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی، تمدنی اور اقتصادی طور پر بھی علیحدہ کردیا جاتا تھا۔ بحیثیت مسلمان یہ اس کا اسلامی فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنی شناخت اور انفرادیت کو کسی دوسرے معاشرے میں گم نہ کرے۔ تمام ادوار میں ہندو ہندو ہے اور مسلمان مسلمان رہے اور انہوں نے اپنی ہستی کو ختم نہ کیا۔ یہی امر پاکستان کی بنیاد بنا۔“ مندرجہ بالا تمام بیانات اس بات کی سند ہیں کہ پاکستان اسلام کی اساس پر قائم ہوا یہی پاکستانی مسلمانوں کا تشخص ہے یہی دو قومی نظریہ ہے اور اسی اساس پر پاکستان مستحکم اور مضبوط ہوسکتا ہے۔ قائداعظمؒ کے تمام بیانات اسی ایک حقیقت کی تفسیر ہیں جسے انگریزوں اور ہندوﺅں نے بھی قبول کیا۔ ....(ختم شد)

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن