بلوچستان ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے نیشنل ایکشن پلان کے امتیازی حصوں پر سوال اُٹھ رہے ہیں‘ انہیں اس پر پہلے ہی تحفظات تھے۔ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ ظلم کی ایسی داستان ہے جس سے ستم کا ایک اور باب کھل جائے گا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک بیج پر لانا ہوگا۔ واقعہ کی ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنے کے بجائے اصلاح کی ضرورت ہے۔
مختلف سیاسی‘ سماجی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر اٹھنے والے سوالات کی مولانا فضل الرحمن نے بات تو کی ہے‘ لیکن اُن سوالات کا تذکرہ نہیں کیا۔ آخر وہ کون سے سوالات ہیں ایکشن پلان پر اُٹھائے جا رہے ہیں۔ ایکشن پلان کی ایک ایک شق عملدرآمد کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ایسا ہو چکا ہوتا تو قوم دہشت گردی کے خاتمے کے قریب ترین پہنچ چکی ہوتی۔ قابل ذکر امر یہ ہے حکومت خود اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی صرف 8 شقوں پر عمل کیا گیا ہے اور جن پر عمل ہوا ہے وہ بھی جزوی طورپر ہوا ہے‘ مکمل عملدرآمد تو صرف ایک آدھ شق پر ہوا ہے۔ جو چیز اپنے نظریات کے مطابق ہو‘ مولانا فضل الرحمن اُسے اچھا گردانتے ہیں اور جو خود اُن کے اور اُن حامیوں کیلئے ناقابل قبول ہو‘ اس پر انہیں سوال اُٹھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے بجائے اجتماعی قومی مفادات کیلئے قوم کے ساتھ کھڑا ہونے کی بات کریں۔
نیشنل ایکشن پلان‘ مولانا فضل الرحمن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنائیں
Aug 15, 2016