ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں دشمن کی سازشیں جاری، سیاسی لیڈر شپ کی ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار
وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے عوام نے منفی اور گندی سیاست کرنے والوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ کنٹینر سیاست کو پروان چڑھانے والوں کو آئندہ بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑیگا۔ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ کنٹینر پر چڑھ کر سنجیدہ سیاست نہیں ہوتی۔ انکی پوزیشن اسی لئے آج ڈاﺅن ہے۔ وزیراعظم شورکوٹ میں موٹر وے ایم فور منصوبے کے سنگ بنیاد کے موقع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ دھرنوں کی سیاست چھوڑ چکے ہیں، لوگ صرف ترقی کی سیاست چاہتے ہیں، چند لوگوں نے سیاست کو مذاق سمجھ رکھا ہے، سبز باغ دکھانے والے یہاں کئی لوگ پھر رہے ہیں، کہتے ہیں تحریک چلائیں گے۔ تحریک چل ہی نہیں رہی کیونکہ عوام نے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ تین سال قبل سفر شروع کیا تو راستے بھی موجود نہیں تھے اور اقتدار سنبھالا تو لوڈشیڈنگ نے عوام کا برا حال کر رکھا تھا، اب ملک میں بجلی کی صورتحال روز بروز بہتر ہورہی ہے۔ ملک اقتصادی صورتحال میں بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم کاشتکاروں،صنعتکاروں سمیت ہر طبقے کی خدمت کی ہے،کھاد کی قیمت میں نمایاں کمی کی ہے۔ آنیوالے وقت میںکھاد کی قیمتوں میں مزید کمی کریں گے۔ دریں اثناءچیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت 5 ماہ سے پانامہ لیکس پر جواب دینے کی بجائے دھمکیاں دے رہی ہے۔ بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے انصاف کے تمام دروازے بند کر دئیے، وزیراعظم انٹرنیشنل انکشاف میں پکڑے گئے انصاف نہیں مل رہا۔ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے، فیصلہ کن مرحلہ آگیا تحریک احتساب اب رکنے والی نہیں، تحریک جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے ہے ،ہم نہیں جواب نہ دینے والے جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ لیاقت باغ میں خطاب میں عمران نے کہا کہ سب کو ملکر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ پشاور سے شروع ہونے والی ریلی لاہور جائے گی۔ میاں صاحب لاہور پہنچنے سے پہلے کچھ کر لیں پھرگنجائش نہیں ہوگی، جدہ جانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
سانحہ کوئٹہ کے بعد پوری قوم سوگ کی کیفیت میں ہے۔ اسی وجہ سے یوم آزادی بھی سادگی مگر پروقار طریقے سے منایا گیا۔ ایسے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کو ایک دوسرے پر طعن و تشنیع زیب نہیں دیتا۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک دوسرے پر بیان بازی میں سبقت لے جانے کیلئے کوشاں ہیں، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں بھی ٹھنی ہوئی ہے، یہ بھی اس وقت ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کئے ہوئے ہیں جب ابھی سانحہ کوئٹہ کے شہداءکی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک قصاص شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کوئٹہ میں دہشتگردی کے پیش نظر 16 اگست کا دھرنا ملتوی کر دیا جبکہ عمران خان پنڈی سے اپنا کارواں اسلام آباد لے جانے پر مصر رہے۔ اول تو آزادی کے مہینے میں ایسی احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں سے مکمل اجتناب کی ضرورت ہے اگر مظاہروں کے بغیر طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو آزادی کے دنوں کے علاوہ پورا سال ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کو آج کچھ لوگ متبادل قیادت قرار دے رہے ہیں۔ اسے اس اولیٰ مقام تک بلاشبہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پالیسیوں نے پہنچایا۔ ورنہ عمران خان تو اس سیاسی دشت کی سیاحی 16 سال سے کر رہے تھے اور ان کے حصے میں ایک سے دوسری سیٹ نہیں آ رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے دوران اس کی عوام کش پالیسیوں کے باعث قومی سیاست سے اس کا پتہ صاف ہو گیا۔ اس کی ساکھ کی بحالی کیلئے ذوالفقار علی بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت کی ضرورت ہے جو اب تک تو دور دور تک نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی و گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ اور کرپشن نے مسلم لیگ ن کی اقتدار میں آنے اور تحریک انصاف کو ووٹوں کے لحاظ سے ملک کی دوسری بڑی پارٹی بننے کی راہ ہموار کی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ڈگر پر چل رہی ہے بلکہ کسانوں، تاجروں اور ملازمین کو مراعات کے حوالے سے پیپلز پارٹی حکومت کا ریکارڈ مسلم لیگ ن کی آج کی حکومت سے بہتر ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر سکی ہے نہ مہنگائی کا طوفان روک سکی ہے۔ لاقانونیت، رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ کرپشن سیکنڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ دو سال میں لوڈشیڈنگ کے وعدے اب 2018ءکے ”لارے“ میں بدل گئے ہیں۔ رمضان المبارک اور یوم آزادی سمیت قومی ایام کے مواقع پر لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان ہوتا ہے۔ عیدین اور قومی ایام پر صنعتیں کارخانے اور بازار بند ہوتے ہیں پھر بھی لوڈشیڈنگ کا عفریت پھنکارتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ روز یوم آزادی پر لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے اعلان کے باوجود بھی بجلی کی بندش کا سلسلہ جاری رہا۔
عمران خان کی تنقید کا جواب اشتعال انگیزی سے دینے سے معاملات درست نہیں ہونگے۔ عوام کیلئے کچھ کر کے دکھائیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو حکومت نے عوام تک اس کا ریلیف مینگنیاں ڈال پہنچایا۔ اس پر بھی عوام نے کسی حد تک سکھ کا سانس لیا مگر تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب مہنگائی اور کرائے کم نہیں ہوئے۔ رمضان میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے حکومت کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ آج پورے ملک میں بچوں کے اغواءکی وباءپھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں شرخ خواندگی مایوس کن ہے اور عوامی سیاسی شعور بھی قابل رشک نہیں مگر عوام کی حکومتی کارکردگی پر نظر ضرور ہے۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کا سیاسی بوریا بستر گول ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ان کی 2018ءکے الیکشن پر نظر نہیں وہ 50 سال آگے کا ویژن رکھتے ہیں۔ اس ویژن کو عملی شکل دینے کیلئے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس ابھی پونے دو سال ہیں۔ ان میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ خود احتسابی ہو سکتی ہے۔ کرپٹ لوگوں کا احتساب ہو سکتا ہے۔ کسانوں، تاجروں اور ملازمین کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی بہتر ہو سکتی ہے۔ مودی نے کل جو کچھ آزاد کشمیر کے بارے میں کہا کہ وہ بھی بھارت کا حصہ ہے، اس کا جواب وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے آنا چاہیے مگر وہ کلبھوشن کی گرفتاری اور برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں پر بھارتی مظالم پر خاموش رہنے کی طرح اب بھی مودی کو دو ٹوک جواب نہیں دے رہے۔ نواز لیگ نے گورننس بہتر نہ کی تو اگلے الیکشن میں برے وقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔ ”منفی اور گندی سیاست“ کے حوالے سے اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں۔ اول تو ایسے الفاظ کا استعمال ہی مہذبانہ نہیں ہے اور پھر مسلم لیگ ن کے ہاکس بھی زبان درازی میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہم پلہ ہیں۔ عمران خان مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے کیلئے بدستور سرگرداں ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ فرض کریں وہ اگلے تین چار ماہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اگر جمہوریت سلامت رہی تو اس کے بعد انتخابات ہونگے۔ اس کے حکومت کی آئینی مدت کے سات آٹھ ماہ باقی رہے ہونگے۔ ضروری نہیں ہے عوام خان صاحب پر ہی اظہار اعتماد کریں۔ اگر اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا تو مسلم لیگ ن ان کو آرام سے حکومت نہیں کرنے دے گی۔ اب عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے کاررواں کے لاہور پہنچنے سے قبل میاں صاحب کچھ کر لیں ورنہ جدہ جانے کا موقع نہیں ملے گا۔ عمران خان کی یہ وارننگ بھی ایمپائر کی انگلی اٹھنے جیسی ہو سکتی ہے۔ بہر حال حکومت کو تحریک انصاف کے جائزہ تحفظات ضرور دور کرنے چاہئیں۔ مگر دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ دو انتہاﺅں پر کھڑی ہے۔ جو ان کے اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ جمہوریت کیلئے بھی مضرت رساں ہو سکتی ہے۔
عمران نے ایک بات البتہ درست اور دانشمندانہ کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب کو مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ دہشتگردی کے ناسور نے پورے ملک میں بارود کی بو پھیلا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو دہشتگردی میں کمی کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اس سے مکمل نجات کیلئے پوری قوم کو حکومت اور افواج کے ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہو گا۔ قوم کو عسکری اور سیاسی قیادت کا ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ بھی نظر آنا چاہیے۔ اس نازک موڑ پر جب ہم دہشتگردی کا شکار ہیں، مودی کی دھمکیوں میں اضافہ اور راہداری کے مخالفت دو چند ہو رہی ہے، ملک سیاسی انتشار کا شکار ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاست دان ہوش کے ناخن لیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دست گریبان ہونے کے بجائے ملک کو دہشتگردی کی دلدل سے نکالنے کیلئے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ پہل وزیراعظم کی طرف سے اپوزیشن کے مطالبے پر خود کو غیر مشروط احتساب کیلئے پیش کرنے سے کی جا سکتی ہے۔
حالات سیاسی انتشار نہیں مفاہمت کے متقاضی ہیں
Aug 15, 2016