” فِیلڈ مارشل “۔ جنرل راحِیل شریف؟

ایک نجی نیوز چینل کی خبر کے مطابق ”دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی اورآپریشن ضرب اُلعضب کو کامیابی کے ساتھ چلانے جیسی خدمات کے صِلے میں وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو "Field Marshal" کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ کِیا ہے ۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ برطانوی فوج میں جنرل سے بڑا ہوتا تھا۔ جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے جنرل ہیں کہ جنہوں نے دسمبر 2015ءمیں اعلان کِیا تھا۔ مَیں اپنی عُمر اورملازمت کی مُدّت کے مطابق 29 نومبر کو ریٹائر ہو جاﺅں گا اور اپنے عہدے کی مدّت میں توسیع نہیں لُوں گا۔ اِس کے بعد جنرل صاحب کی مُدّتِ ملازمت کی توسیع پر بحث ختم ہو جانا چاہیے تھی لیکن اُن کے چاہنے والوں کی خواہش تھی کہ جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کا اعلان واپس لے لیں۔ جولائی 2016ءکے دوسرے ہفتے میں لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں دیواروں پر جنرل راحیل شریف کی تصویروں والے پوسٹرز چسپاں کئے گئے تھے جن پر لِکھا تھا ”خُدا کے لئے اب آ جاﺅ!“ ۔ (یعنی اقتدار سنبھال لو)۔ 

اُدھر مسلم لیگ ن کے بعض بیان باز راہنما اپنی اہمیت جتا رہے تھے ”ہماری حکومت جنرل راحیل شریف کی مُدّتِ ملازمت کی توسیع پر غور کر رہی ہے “۔ وفاق اور پنجاب کے کئی وزراءبھی اپنے حلقہ¿ انتخاب کے ووٹروں کی کُنڈی کھڑکا کر انہیں بتایا کرتے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف ایک ہی Page پر ہیں۔ اِس سے قبل دسمبر 2015ءکے اواخر میں جنرل راحیل شریف نے اربوں روپے مالیت کے اپنی دو قیمتی پلاٹ شُہداءفنڈ کے نام وقف کر کے قوم کے دِلوں میں اپنی عِزّت میں مزید اضافہ کرلِیا تھا ۔
9 جنوری 2016ءکو امریکی ادارے "A.B.C. News" نے پوری دُنیا میں خبر پھیلا دی کہ جنرل راحیل شریف دُنیا کے 10 جنرلز میں سے بہترین جنرل اور فوجی کمانڈر ہیں۔ خبر میں جنرل راحیل شریف کو پاکستانی قوم کا مسیحا قرار دیتے ہُوئے کہا گیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے فوج کی گرتی ہُوئی ساکھ بحال کر کے اُسے اوجِ کمال بخشا اور اِس انداز میں اُسے دہشت گردوں کے مقابلے میں صف آراءکِیا اور اُنہوں نے قوم کی آنکھ کا تارا اور ہیرو بن کر عالمی برادری میں اپنا ایک معتبر مقام بنا لِیا ہے ۔ خبر کے مطابق ۔ جنرل راحیل شریف کے بعد امریکی جنرل ڈمپسی دوسرے نمبر پر اور بھارت کے آرمی چیف جنرل دلیر سِنگھ آٹھویں نمبر پرہیں۔
مَیں نے 28 جنوری 2016ءکو جنرل راحیل شریف اور جنرل بخت خان کے عنوان سے اپنے کالم میں لِکھا کہ 11 مئی 1857ءکو جنگِ آزادی کا آغاز ہُوا تو اودھ کے مسلمان راجپوت جنرل بخت خان نے 31 مئی کو دہلی میں اپنی 30 ہزار فوج سے انگریزی فوج کو بھگا دِیا تھا لیکن آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کمزور طبیعت ، مُغل شہزادوں اور درباریوں کی سازشوں کی وجہ سے جنرل بخت خان بادشاہ سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ( رُو پوش ہوگیا) ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ Marshal Race ( جنگجو قوم راجپوت) کے فرزند جنرل راحیل شریف فی الحال 28 نومبر 2016ءتک On Duty ہیں اور وہ پاکستان کے ہیرو بن کر پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں ۔
10 اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا مِلی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی ، طالبان کے برادرِ بزرگ مولانا فضل اُلرحمن اور حزبِ اختلاف کے بعض قائدین نے ہماری انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں پر جِس انداز میں تنقید کی ، اُس کے بعد ۔ جنرل راحیل شریف اور اُن کی کمان میں وطنِ عزیز کے لئے قربانیاں دینے والے پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو کچھ تو گِلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔ شاعر نے کہا تھا ....
بندہ¿ پَرور کوئی احسان نہیں
ہم وفاﺅں کا صِلہ مانگتے ہیں
12 اگست کو راولپنڈی میں جنرل راحیل شریف کا جی ۔ ایچ ۔ کیو میں اپنے خطاب میں کہا کہ ” پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ ہے لیکن کامیابیوں کے لئے مربوط ردِ عمل کی ضرورت ہے ۔ بعض حلقوں کے گُمراہ کُن اور اُکسانے والے تبصرے کر کے قومی کاوش کو کمزور کر رہے ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل نہ ہونے پر ضرب اُلعضب مُتاثر ہو رہا ہے “۔ (جنرل صاحب نے ظاہر ہے کہ سیاسی قیادت کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ۔ ” خامیاں دُور کریں ورنہ امن خواب رہے گا ۔ ہر رُخ سے پیش رفت نہ ہُوئی تو دہشت گردی کا لاوا پکتا رہے گا“۔ جنرل صاحب نے کہاکہ ۔ ” انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سلام ، پوری قوم سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے “۔
مسلم لیگ ن، اُس کے اتحادیوں محمود خان اچکزئی ،مولانا فضل اُلرحمن اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے اُس کی حمایتی پاکستان پیپلز پارٹی اور مختلف فورمز پر ٹُوں ٹاں کرنے والی چھوٹی سیاسی / مذہبی پارٹیاں جِن میں پاکستان میں خلافت کے قیام کے لئے دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل ہیں ، دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ کا نام دیتے ہیں ، اُن کی سوچ پاک فوج اور عوام کی سوچ سے مختلف ہے ۔ ایسے موقع پر جنرل راحیل کو فیلڈ مارشل بنائے جانے کے فیصلے کی خبر پڑھ / سُن کر عجیب سا لگتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی اِس طرح کی خبروں کی اشاعت کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ تو علامتی ہوتا ہے اور اُس کے تو کوئی اختیارات ہی نہیں ہوتے ۔
یاد رہے کہ 10 مارچ 2016ءکو وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے دورے پر تھے اور اُسی دِن امریکی سیاسی اور عسکری ذرائع سے میڈیا پر خبر آئی کہ جنرل راحیل شریف سے تقاضا کِیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو کر سعودی عرب کی سربراہی میں 34 اسلامی ملکوں کے اتحاد کے Coalition Commander - In- Chief کا عہدہ قبول کرلیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ 34 ملکوں کے اتحاد کا اعلان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اوروزیر دفاع شہزادہ محمد بن سُلطان نے کِیا تھا۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے مایہ ناز سپُوت اور ایک Living Legendہیں۔ بادشاہت، آمریت اور جمہوریت کے حامل 34 اسلامی ملکوں میں بادشاہوں کا غلبہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانوں کو بنیادی حقوق نہیں دیتے ، اِس لئے جنرل راحیل شریف بادشاہوں کی نوکری نہ کریں!۔
مجھے یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف بادشاہوں کی نوکری نہیں کریں گے اور نہ ہی پاکستان کے بے اختیار فیلڈ مارشل کا عہدہ قبول کریں گے۔ دراصل اِس طرح کی خبریں چھپوانے والے لوگ اپنی طفلانہ حرکتوں سے جنرل صاحب کا قد کاٹھ چھوٹا کرنا چاہتے ہیں ۔ جنرل محمد ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کِیا تو اُنہوں نے اپنی نامزد کابینہ سے جِس میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے فیلڈ مارشل کا خطاب حاصل کرلِیا تھا ۔ بھٹو صاحب فیلڈ مارشل کو ڈیڈی کہتے تھے۔ پھر ایشیاءکا ڈیگال اور غازی صلاح اُلدّین ایوبی ثانی کہنے لگے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان رُسوا ہو کر رُخصت ہُوئے ۔ جنرل راحیل شریف تو قوم کے دِلوں میں بستے ہیں۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔Live In My Heart and Pay No Rent۔

ای پیپر دی نیشن