قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان

Aug 15, 2016

نازیہ مصطفٰی

پاکستان کی تاریخ میں اگست کے مہینے کو اس لحاظ سے اہم مقام حاصل ہے کہ اس مہینے میں مسلمانان ِبرصغیر کی قربانیاں رنگ لائیں اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، لیکن پاکستان کا قیام یونہی بیٹھے بٹھائے عمل میں نہیں آگیا تھا، بلکہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں لاکھوں جوانوں کا لہو بہا تھا، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانی بھی اس میں شامل تھی، انگنت سہاگ لٹے تھے اور ماؤں سے اُن کے جگر گوشے چھین لیے گئے۔ یہ اِس خطے کے مسلمانوں کی لازوال قربانیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے الگ مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا تھا۔ حصول پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں اورکی جانے والی انتھک جدوجہد میں عوام اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں کا بھی بڑا حصہ اور کردار ہے۔ یہ قلم کے محاذ پر ڈٹے وہ بے لوث مجاہد ہی تو تھے جنہوں نے پہلے قوم کو الگ مملکت کا خواب دکھایا اور پھر اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانے کیلئے اپنی تحریروں اور اپنے کلام کے ذریعے نوجوانوں میں ایسا جوش و جذبہ، ولولہ اور جنون پیدا کر دیا کہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ہندوستان کے کونے کونے سے ایک ہی صدا آنے لگی تھی کہ ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ اللہ‘‘۔ یہ صدا دو قومی نظریے کی وجہ سے سنائی دے رہی تھی اور بلاشبہ دو قومی نظریے کے فکری اور عملی سطح پر پرچار کرنے میں ہمارے ادیبوں اور شاعروں کا بہت اہم کردار تھا، لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں اس سلسلے میں علامہ محمد اقبالؒ دو قومی نظریے کے سب سے بڑے داعی تھے۔ علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے انہیں امید کی کرن دکھائی اور اپنے کلام میں مایوسی کی جگہ امید، روشنی اور انقلاب کا پیغام دیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے 1930ء میں اپنے مشہور خطبہ الہ آباد میں جب مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کا خاکہ پیش کیا تو کانگریس کے حاشیہ برداروں نے اِس خاکے کو ایک شاعر کا خواب کہہ کر تمسخر اُڑایا، لیکن علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ’’میں اس خطے میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کا خواب حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ علامہ اقبالؒ کو زندگی نے مہلت نہ دی، لیکن اِس خطے کے کروڑوں باسیوں نے علامہؒ کا خواب سچ ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج ہمیں ایک دفعہ پھر سے مایوسی سے نکل کر علامہ اقبالؒ کی انقلابی سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی اصل منزل ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی شبانہ روز محنت اور بے مثال جدوجہدسے حقیقت میں تو بدل دیا، لیکن المیہ یہ ہوا کہ قائداعظم کے بعد پاکستان کو کوئی مخلص رہنما نہ مل سکا، قائداعظم کے بعد آنے والوں نے بالکل ہی فراموش کر دیا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں لاکھوں جوانوں کا لہو بہا تھا، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانی بھی اس میں شامل تھی، انگنت سہاگ لٹے تھے اور ماؤں سے اُن کے جگر گوشے چھین لیے گئے تھے۔ قربانیوں کو فراموش کرنا دراصل شہدائے پاکستان کے بہائے جانے والے لہو کی احسان فراموشی تھی۔ ملک کو آگے بڑھانے اور قائداعظم کے فرمودات کے مطابق ایک ترقی یافتہ، فلاحی اور خوشحال پاکستان بنانے کیلئے جس پیار، محبت اور یگانگت کی آبیاری کی ضرورت تھی، اس پر بالکل ہی توجہ نہ دی گئی۔ اپنے اپنے مفادات کے خول میں قید ناخلف لوگوں نے محبت کے پودے کو پروان چڑھانے کی بجائے نفرت کے بیج بونے شروع کر دیئے۔ یہ اِنہی نفرتوں کا نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کے بعد ابھی اڑھائی دہائیاں بھی پوری نہ ہوئی تھیں کہ ہم پاکستان کا ایک بازو گنوا بیٹھے۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے وقت بھی یہ سوال اٹھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں لاکھوں جوانوں کے لہو، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں، انگنت سہاگوں اور ماؤں کے جگر گوشوں کی قربانی کیا اِس لیے دی گئی تھی کہ اس ملک کو کچھ لوگوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟ اور اب بھی جب ہر سال 14 اگست آتا ہے تو یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے! ہر سال 14 اگست آتا ہے تو عوامی سطح پر جوش و جذبہ پوری تابانی سے نظر آتا ہے، لیکن قیادت کی سطح پر ایک رٹہ رٹایا سکرپٹ دہرا کر سمجھا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہو گئے! کیا چند جذباتی جملے، جن پر خود رہنما عمل نہ کرتے ہوں، وہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں! لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ قحط الجال صرف سیاست میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔ کھوکھلے نعرے صرف سیاست دان ہیں نہیں لگاتے بلکہ ہر شعبہ کا یہی حال ہے۔ یہاں ہر کوئی دوسروں کی سمت سیدھی کرنے کے چکر میں تو رہتا ہے، لیکن اپنا قبلہ کوئی سیدھا نہیں کرنا چاہتا۔ اگرچہ حالات بہت زیادہ اچھے نہیں، لیکن اس کے باوجود امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن اُس کیلئے وہی تحریک پاکستان والا جذبہ درکار ہے، جس کیلئے سب کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ چاہے کوئی سیاستدان ہے، تاجر ہے، کسان ہے، استاد ہے، دانشور ہے یا شاعر اور ادیب ہے، پاکستان کو دہشت گردی، کرپشن، لاقانونیت اور انتشار کی موجودہ کیفیت سے نکالنے کیلئے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
قارئین کرام! آزادی حاصل کرنا یقیناً ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ کٹھن مرحلہ اِس آزادی کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ تمام چیلنجز اور مسائل کے باوجود اس آزادی کو ناصرف پورے تزک و احتشام کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے اور ملک و قوم کو دنیا میں ممتاز مقام بھی دلوایا جا سکتا ہے بلکہ موجودہ پاکستان کو وہ پاکستان بھی بنایا جا سکتا ہے، جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا، لیکن اس کیلئے ایک ہی شرط ہے کہ اس قوم پر صرف ایک احسان کر دیا جائے اور وہ احسان یہ ہو گا کہ اِس ملک میں قانون کی عملداری کو یقینی بنا دیا جائے۔ اگر اِس ملک میں ہر کام قانون کے مطابق ہونے لگے تو تمام مسائل بھی یقینی طور پر بہت جلد حل ہو جائیں گے۔ ملک میں قانون کی عملداری قائم کرنے کیلئے اس ملک کی مقتدر (سیاسی و عسکری) قوتوں کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں پر بھی بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوان نسل کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالیں اور انہیں اقبال کا حقیقی شاہین بنانے کیلئے زور قلم آزمائیں۔ اگر یہ سب ہو جائے تو موجوہ پاکستان قائد اور اقبال کا پاکستان بن جائے گا۔

مزیدخبریں