لاہور (ندیم بسرا) وزارت پانی وبجلی اور اس کے زیرانتظام تقسیم کار کمپنیوں میں نئے ٹیوب ویل کنکشن کے حوالے سے جامع پالیسی نہ ہونے سے ٹیوب ویلز کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ٹیوب ویل کنکشن کی تعداد میں مسلسل اضافے سے آبپاشی کی فی ایکڑ پیداواری استعداد میں 25فیصد کمی ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق وزارت پانی وبجلی کی پنجاب کی تقسیم کار کمپنیاں لیسکو، گیپکو، فیسکو، میپکو، آئیسکو بغیر منصوبہ بندی کے ہر ماہ 10 ہزار ٹیوب ویل کنکشن جاری کر رہی ہیں۔ لیسکو انتظامیہ سیاسی اثرورسوخ کے دبائو پر نئے ٹیوب ویل صارفین کنکشن فراہم کر رہی ہے لاہورکے مضافات، قصور، اوکاڑہ، شیخوپورہ میں نئے ٹیوب ویل کنکشنز بغیر پالیسی کے دھڑا دھڑ دئے جارہے ہیں۔ حکومت کی پالیسی واضح نہ ہونے سے زرعی زمین کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی 18 سے25 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ملک میں اس وقت تقریباً ڈھائی لاکھ ٹیوب ویل بجلی پرچلائے جارہے ہیں جبکہ 9لاکھ ٹیوب ویلوں کو ڈیزل پر چلا کر زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر برس 65کروڑ روپے سے زائد کا ڈیزل اس مد میں استعمال ہوتا ہے۔ خمیازہ سب سے زیادہ پنجاب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب کے 16 اضلاع کے کاشتکاروں کو نہری پانی کی دستیابی میں 35فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔ پاکستانی زرعی نہری نظام سے ساڑھے تین کروڑ ایکڑ زمین کاشت کی جا سکتی ہے۔ ٹیوب ویل سے ملک کی ایک کروڑ ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کیا جارہا ہے۔ ٹیوب ویلوں کے مسلسل استعمال سے سیم و تھور میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے نے شیخوپورہ، اوکاڑہ،قصور، فیصل آباد، جھنگ، میانوالی، لیہ، راجن پور، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، وہاڑی، خانیوال اور بہاولنگر جیسے زرخیز علاقوں کی ربیع اور خریف کی فصلوں کی پیداواری استعداد میں بھی بیس سے پچیس فیصد تک کمی کی ہے۔ پانی کی قلت کا یہ سلسلہ برقرار رہا تو آئندہ برسوں میں زمین کی فی ایکڑ پیداوار نہ صرف کم ہو گی بلکہ زرعی شعبے میں خودکفالت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔