کابل (شنہوا+ نوائے وقت رپورٹ) طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو گھیرائو شروع کر دیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق طالبان کابل سے 9 میل کے فاصلے پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے کابل سے 9 میل دور چار آسیاب ڈسٹرکٹ پر قبضہ کر لیا۔ جلال آباد کو افغان فورسز نے بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے حوالے کر دیا۔ طالبان نے مزار شریف پر بھی قبضہ کر لیا۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق جنرل عبدالرشید دوستم اور جنرل عطا محمد نور سمیت افغان فوجیوں کی سرحد پار کر کے ازبکستان بھاگنے کی اطلاعات ہیں۔ طالبان نے بغیر لڑائی صوبہ دابکبندی کے مرکز نیلی پر بھی قبضہ کر لیا۔ طالبان 34 میں سے 24 صوبوں کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔ قطر نے طالبان سے سیز فائر کرنے کی اپیل کر دی اور کہا ہے کہ جارحیت روکی جائے۔ رائٹرز کے مطابق دوہا میں گروپ کے نمائندوں میں ملاقات میں قطری وزیر خارجہ نے سیز فائر کی اپیل کی۔ افغان صدر اشرف غنی نے ملک کے سیاسی رہنماؤں اور سابق جنگی سرداروں سے ہنگامی ملاقات کی۔ افغان رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے بااختیار ٹیم تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا۔ افغان میڈیا کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ سے سینئر افغان رہنماؤں نے اہم ملاقات کی۔ جس میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا معاملہ زیرغور آیا۔افغان طالبان نے افغانستان کے 34 میں سے 23 صوبوں کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا، افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے صوبہ لوگر کے دارالحکومت پل عالم پر قبضہ کر لیام طالبان صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں بھی داخل، صوبہ کنڑ کے صدر مقام اسد آباد پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا، زابل کے گورنر نے طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ صوبہ بلخ کے علاقوں میں شدید لڑائی، طالبان کی کابل کی طرف سے تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق طالبان 72 گھنٹے میں کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں،بھارٹی میڈیا کے مطابق صدر اشرف غنی استعفے پر غور کر رہے ہیں، استعفی دیکر فیملی سمیت بیرون ملک چلے جائیں گے، افغان صدر کا کہنا ہے کہ قتل و غارت املاک تباہ نہیں کرنے دیں گے، سکیورٹی دفاعی افواج کو متحرک کرنا ترجیح ہے۔ ادھر امریکی میرینز فوجی سفارتی عملے کو لینے کا بل پہنچ گئے ہیں۔ کابل سے امریکی سفارتی حکام نے اہلکاروں کو حساس نوعیت کا سامان تباہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکیوں اور اتحادیوں کے انخلاء کیلئے 3 ہزار امریکی فوجی اتوار تک کابل ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے برطانیہ یا کسی بھی اور طاقت کو ملٹری آپریشن کے ذریعے افغانستان کی صوتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے حقیقت پسندی کا مظاہر کرنا ہوگا عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ افغانستان سے اپنے سفارتکاروں کی واپسی کے باوجود کابل حکومت کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم خطے میں اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ ملکر افغانستان کو ایک بار پھر دہشتگردوں کی افزائش گاہ بننے سے روک سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان عسکریت پسندوں سے حکومتی فورسزکے خلاف کارروائیاں بند کرنے اور افغانستان اور اس کے عوام کے مفاد میں نیک نیتی سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہلمند، قندھار اور ہرات کے صوبوں میں صرف گزشتہ ماہ کے دوران شہریوں کے خلاف بلاامتیازحملوں میں ایک ہزارسے زائد شہری ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا افغانستان جو افسوسناک طور پر نسلوں سے تنازعات کا شکار ہے وہ ایک اور افراتفری اور مایوس کن باب کی زد میں ہے، یہ طویل عرصے سے مصائب کا شکار افغان عوام کے لئے ایک ناقابل یقین المیہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ شہروں اور قصبوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی سے بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم 2 لاکھ 41 ہزار لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم یقینی طور پر طالبان کی تیزرفتاری سے جاری پیش رفت سے پریشان ہیں"یہ گہری تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کابل کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ افغانوں کے لئے وقت ہے کہ وہ اپنی قیادت اور فوج کے اندراتحاد کا مظاہرہ کریں۔ یہاں کوئی بھی پیدا شدہ صورتحال اٹل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پنٹاگون ترجمان جان کربی سے سوال میان صحافیوں نے کہا امریکہ طالبان کی پیش قدمی سے حیران کیوں رہ گیا؟ تیاری کیوں نہ کی جا سکی؟ جواب میں ترجمان نے کہا کہ جس چیز کا ہم اندازہ نہیں کر سکے، وہ یہ تھی کہ افغان فورسز مزاحمت نہیں کریں گی۔ پیسے سے لڑنے کی ہمت اور بہادری نہیں خریدی جا سکتی۔ جان کربی طالبان کے شہروں پر قبضے کے باوجود فی الحال کابل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سیکرٹری جنرل نیٹو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان تشدد اور حملوں کا سلسلہ بند کریں طاقت سے حکومت پر قبضہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔