ایسے موسم میں جب ادبی جریدے قلم اور قلم کار سوشل میڈیا کی خوراک بنتے جا رہے ہیں محمد طفیل نقوش اور تاریخ ساز جریدے نقوش کے وارث جاوید طفیل آج15 اگست جو ان کی وفات کا دن ہے بے طرح یاد آتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ ان کی بیٹی فرح جاوید نے بیٹوں کی طرح جریدہ نقوش کو بھی نئے انداز سے شائع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور پاکستان رائٹرز گلڈ ٹرسٹ کی چیئر پرسن کی حیثیت سے سے دوسرے صولوں کا اعتماد حاصل کر کے گلڈ کی سرگرمیوں کی بحالی میں اپنا کردار ادا کر کے اپنے مرحوم والد اور قدآور مدیر اور تخلیق کار دادا محمد طفیل کے نام کو زندہ رکھا ہوا ہے میں نے اگرچہ جاوید طفیل مرحوم کے والد اپنے وقت کے مثالی ادبی مدیر محمد طفیل نقوش کی محفلوں میں بھی سانس لیا ہے اور اس حوالے سے نقوش کے تاریخی سیرت نمبر کے ایک شمارے میں میرے اور جناب محمد طفیل کا مشترکہ تذکرہ اور مکالمہ تاریخ کا حصہ ہے مگر جاوید طفیل مرحوم کے ساتھ لٹریری سرگرمیوں کی شراکت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے اہم ترین ادبی ادارے پاکستان رائٹرز گلڈ کی انتظامی باڈی میں بھی مل کر طویل عرصہ تک کام کیا اور دوسرے بہت سے احباب کی طرح ان کی ادبی صحافتی انتظامی خوبیوں کے ساتھ رائٹرز گلڈ کے حوالے سے انکی مثبت سرگرمیوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے ۔جاوید طفیل مرحوم کو ادارہ نقوش کی باگ ڈور ایسے حالات میں سنبھالنا پڑی تھی جب نقوش پاکستان یا برصغیر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اردو کے ایک باوقار ادبی جریدے کا مقام حاصل کر چکا تھا۔ اتنے بڑے ادبی جریدے کو سنبھال کر آگے بڑھنا آسان کا نہ تھا۔ اس ذاتی بڑے ادارے کے ساتھ پاکستان رائٹرز گلڈ کے انتظامات تھے ۔ اس ادارے کے اثاثوں کو بچانا تھا۔ اثاثے جو پاکستان گلڈ کے ارکان کی مشترکہ ملکیت تھے اور جن پر ایک مدت سے مختلف سرکاری اداروں اور افسران کی نظریں تھیں۔ جاوید طفیل مرحوم نے اپنے اشاعتی ادارے اور جریدے نقوش کو بھی اپنے عزیزوں کے تعاون سے سنبھالا اور گلڈ کو بھی بھرپور توجہ کا مرکز بنایا۔ ۔ جاوید طفیل مرحوم نے علم و ادب کے پیاسوں اور خاص طورپر نوجوان نسل کو نقوش پیٹ فارم پر جمع ہونے والے علمی ادبی اثاثوں سے فیض یاب کرنے کیلئے عملی اور ٹھوس قدم اٹھایا۔ انہوں نے نقوش کے تاریخی خاص نمبروں کے نسخے گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری کے نقوش کلیکشن کیلئے پیش کئے جانے کے بعد فروری 2007ء میں پانچ ہزار ایسے نادر خطوط ’’نقوش کلیکشن‘‘ میں جمع کروائے جو دنیا بھر سے اور برصغیر کے مختلف حصوں سے اپنے وقت کے نامی گرامی ادیبوں‘ شاعروں اور دانشورو نے لکھے تھے ۔ ’’نقوش کلیکشن‘‘ کو اور زیادہ RICH کرنے کیلئے جاوید طفیل مرحوم کے بعد اب ان کی صاحبزادی فرح جاوید نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وقت کیساتھ ساتھ جتنی غیر مطبوعہ نگارشات‘ خطوط دستیاب رہے ہیں‘ وہ گورنمنٹ کالج کی لائبریری کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ جاوید طفیل مرحوم کی برسی کے قریب آتے ہی ان سے وابستہ یادیں انکے دوستوں اور چاہنے والوں کو جہاں اداس کرتی ہیں‘ وہیں ایک نئے جذبے سے بھی ہمکنار کرتی ہیں۔ انہیں خیبر پختونخوا کے احباب سیکرٹری اسیر مینگل فقیر حسین مسرور افتخار تشنہ بشری فرخ شیر ولی خان ملک صادق حسین اور صوبہ بلوچستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری حلیم مینگل اور ان کے ساتھی بھی اسی طرح رائٹرز گلڈ کے ایک محسن کے طورپر یاد رکھتے ہیں جس طرح صوبہ پنجاب کی شاخ انہیں اس حوالے سے یاد رکھتی ہے ۔ صوبہ پنجاب کی انتظامی باڈی تو اور زیادہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ کس طرح جاوید طفیل اور انکے وحید رضا بھٹی، امجد علی شاکر اور بیدار سرمدی راقم الحروف سمیت مختلف ساتھیوں نے قانونی جنگ اور دوسرے ذرائع کو کام میں لا کر گلڈ کے اثاثوں کو بعض حلقوں سے بچایا۔ ۔ گلڈ کو سنٹرل لیول پر اور صوبائی سطح پر مزید مضبوط اور جمہوری انداز میں آگے بڑھانے کیلئے مسلسل رابطوں اور جدوجہد کی جو روایت جاوید طفیل مرحوم نے چھوڑ ی تھی اس روایت کو ان کی صاحبزادی نقوش کی مدیرہ اور گلڈ ٹرسٹ کی موجودہ چیرپرسن فرح جاوید اور گلڈ کی موجودہ قیادت آگے لیکر چل رہی ہے ۔ علم و ادب کے کتابی ورثے (نقوش) اور ادارہ جاتی ورثے گلڈ کے پلیٹ فارم سے اہل قلم کی صحیح خدمت ہی وہ عملی کام ہے جس کے ذریعے جاوید طفیل جیسے ہفت پہلو انسان کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جاوید طفیل مرحوم نے اپنے دور میں رائٹرز گلڈ کو مالی طور پر ہر طرح کے بیرونی سہاروں سے بے نیاز کرنے کیلئے گلڈ کی مرکزی جائیداد میں تعمیراتی منصوبوں کی خاکہ بندی کی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سے ملنے والی امداد کی بندش کے بعد اپنے ذرائع سے گلڈ کے انتظامی اخراجات کا اہتمام کیاجاسکے مگر بدقسمتی سے بعض احباب کے عدم تعاون سے انکی زندگی میں یہ منصوبے کاغذی خواہشات سے آگے نہ بڑھ سکے اور مجبوراً گلڈ کے ’’لان‘‘کو کرائے پر دیکر کچھ وسائل پیدا کئے گئے جو انکی صاحبزادی کے ٹرسٹ کے چیئرپرسن بننے کے بعد چاروں صوبوں میں باقاعدگی ماہانہ تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس حوالے سے چاروں صوبوں کی قیادت کی طر ف سے ٹرسٹ کے مالی تعاون سے کتب کی اشاعت کی جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اسکے تحت سب سے پہلے بلوچستان کے سیکرٹری حلیم مینگل کی مرتب کردہ ممتاز لکھاری دانشور مثالی افسر شاعر اور ڈرامہ نگار عطا شاد کے ریڈیائی ڈراموں کا انتخاب آواز کے سائے کے نام سے شائع ہوا ہے ۔ اب ایک کتا ب صوبہ پنجاب کی طرف سے شائع ہو رہی ہے اور پھر صوبہ خیبر پختونوا کی طرف سے کتاب کی اشاعت کی دعوت دی جائے گی چھ چھ ماہ کے وقفے سے کتابوں کی اشاعت میں مالی تعاون بھی علم ا ادب کیلئے گلڈٹرسٹ کی طرف سے نئی پیشرفت ہے ۔ محمد طفیل نقوش کے بعد تسلسل سے شائع ہونے والے جاوید طفیل کی میراث یعنی نقوش کی نئے رنگ کی اشاعت بھی سامنے آ رہی ہے ۔ امید ہے کہ سوشل میڈیا کی چکا چوند میں بھی طفیل فیملی کا نقوش اپنی روشنی کے پھیلانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا ۔