بھارت تیرے ہاتھ میں وہ لکیر نہیں
کشمیر تیرے باپ کی جاگیر نہیں
آج 15اگست ہے ،بھارتی اپنا پچہترواں یوم آزادی منا رہے ہیں ،مگر دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کے کشمیری مسلمان بھارت کے اس یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں ۔عجیب یوم آزادی منا رہے ہیں بھارتی کہ” آزادی “ کے مفہوم سے ہی نہیں واقف ،اگر واقف ہوتے تو کیا جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی دے نہ دیتے ۔دوسروں کی آزادی سلب کر کہ یوم آزادی منانا کہا ں کی آزادی یا انصاف ہے اوردیکھا جائے تو بھارت کب آزادہوا ؟آزادی تو پاکستان نے حا صل کی وہ بھی لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر جنہیں بھارتی ہندو فسادیوں نے ہی قتل کیا آزادی حاصل کرنے کی مخاصمت میں ،جلن میں۔یہ سوچنے والی بات ہے ،بھارتی تو انگریز سامراج کی غلامانہ زندگی کو پسند کرتے تھے وہ تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلا جائے بالکل اسی طرح کہ جیسے افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی انہیں پسند تھی وہ تو چاہتے تھے کہ امریکی افواج تا دیر افغانستا ن میں قبضہ جمائے رکھے اور بھارتیوں کو پاکستان کے خلاف کھیل کھیلنے کا موقع ملتا رہے ۔
ہندو ستان تو وہی کا وہیں ہے ،الگ تو وہ علاقے ہوئے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے یعنی موجودہ سندھ ،پنجاب ،بلوچستان ،خیبر پختونخواہ ،گلگت بلتستان اور کشمیر جو تقسیم ہند کے بعد آدھا پاکستان اور آدھا بزور یا سازش جو بھی کہہ لیا جائے کی صورت میں بھارت کا حصہ بنا دیا گیا اور وہ دن گیا اور آج کا دن آیا کہ مقبوضہ کشمیرکے عوام بھارت سے آزادی حاصل کرنے کےلئے اپنی جدوجہد مسلسل میں لگے ہوئے ہیںوہ بھارت کے ساتھ کسی صورت الحاق کے لئے تیار نہیں اور بھارت ہے کہ زبردستی انہیں اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے ،اس کےلئے وہ گذشتہ پچہتر سالوں سے کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم و ستم و چھوٹی بات قیامت جیسے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ،کبھی جموں و کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے کی غرض سے نہتے کشمیر یوں کو پابند سلاسل کرتا ہے تو کبھی انہیں بندوقوں کے بٹ مار مار کر زخمی کر تا ہے تو کبھی انہیں گولیوں سے چھلنی کر کہ جان سے مار دیتا ہے تو کبھی کشمیری خواتین کی کھلے عام آبروریزی کے سنگین جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو کبھی بچوں بوڑھوں کو زیرحراست قتل کر دیتا ہے تو کبھی مسجدوں میں نماز پڑھتے نمازیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیتا ہے تو کبھی تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں کئے جانے احتجاجی مظاہروں پر لاٹھی چارج آنسو گیس کے شیل استعمال بلکہ گولیاں تک چلا کر انہیں تحریک آزادی سے باز رکھنے کی ناکام کوشیشیں کر تا چلا آرہا ہے ۔بھارت کل بھی کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا ،آج بھی سلسلہ وہی جاری وساری ہے ۔ آج بھی 15 اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر لاٹھی چارج آنسو گیس کے شیلوں کی بارش سمیت فائرنگ کے واقعات اس لئے رونما ہو رہے ہیں کیونکہ کشمیر ی بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں جو ان کاحق بھی ہے ۔جب جموں و کشمیر کے مسلمان آزادنہیں تو انہیں بھارتیوں کی آزادی سے کیا لینا دینا۔جیسا کہ ہم پہلے ہی اوپر والی سطروں میں لکھ چکے ہیںکہ عجیب آزادی کا جشن منارہے ہیں دوسروں کو پابند سلاسل اور زبردستی قید کر کہ ۔اس سے تو لگتا یہی ہے کہ بھارتیوں کوآزادی کے مفہوم سے آگاہی حاصل ہی نہیں تو پھر تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہی ہوئی نا ۔ کشمیر کو ا سکے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پاکستان حاصل کیا تو کشمیر معاہدے کے مطابق پاکستان کی سرحد میں طے پایا لیکن ہندوستان کی سرکار اور عوام کو یہ بات ہضم نہ ہوئی جس کے نتیجے میں اس دن سے آج تک کشمیر دو حصوں میںمنقسم ہے ،آج بھی ہمارے کشمیر ی بھائی بہنیں بھارتی غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن آج اس ترقی اور امن کے دور میںبھی کشمیریو ں پر بھارتی ظلم و جبر کا شکا ر ہے ۔
کشمیر کی سر حد پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے یہ ثابت کروانے کےلئے کہ پاکستان کے عوام کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ بات بھی اظہر من التمش ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی آزادی کےلئے کئی جنگیں لڑی گئیں ،مہمات چلائی گئیں ،مقبوضہ کشمیر کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین کئی معاہدے طے پائے گئے مگر بھارت کی چالاکیاں اور بے ایمانیاں ہمیشہ کشمیریوں کے حقوق کو دباتی رہیں ۔بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہزاوں کشمیری مسلمان آزادی کی خاطر اپنی جانوںسے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن دیکھا جائے تو آج بھی کشمیریوں کی نظر اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی قراردادوں پر لگی ہوئیں ہیں ۔اب ایسی صورتحال میں دیکھا جائے تو صرورت ا س امر کی ہے کہ حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی کے تحت محبت و خلوص کا جذبہ ابھاراجائے تاکہ کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی ظلم و جبر کی تکلیف پاکستانی بھائی بھی محسوس کر سکیں تاکہ جدوجہد تحریک آزادی کشمیر میںمزید جان پڑ سکے اور عالمی سطح پر آواز بلند ہو سکے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے گذشتہ پچہتر برسوںسے جاری سلسلے پر غور کیا جائے تو اس وقت مسئلہ کشمیر نازک و سنگین صورت اختیا ر کر چکا ہے اور جس پر انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیمیں بھی مکمل اور مسلسل خاموشی اختیار کر کئے ہوئے ہیں جو امن کی علمبردار دُنیا کےلئے بھی فکریہ ہے بلکہ شرم کا مقام بھی ہے اسلئے اقوام متحدہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عملدر آمد کو یقینی بناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں عوامی رائے شماری کو یقینی بنائے تا کہ مظلوم کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ جلد تا جلد ہو سکے جس کے لئے وہ گذشہ پچہتر برسوں سے جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں ۔
علاوہ ازیںدیکھاجائے تو مسئلہ کشمیر محض مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ خطے کے امن و بھی جڑا ہوا ہے ،جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات مستحکم نہیں ہو سکتے نہ ہی خطے کی امن کی ضمانت نہیں مل سکتی ۔