بے نقاب :اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
دنیا بھر میں آزاد اقوام اپنی آزادی کے ہیروز سے خراج عقیدت کا مظاہرہ کرتی ہیں. کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے. کہ وہ آج انہیں لوگوں کے مرہون منت آزاد فضاؤں میں سانس لے رہی ہیں. پاکستانی قوم دنیا کی وہ واحد قوم ہے. جو اپنے قومی ہیروز سے نفرت کا اظہار کرتی ہے. جس کا عملی مظاہرہ دنیا نے اپنی چشم دید سے سانحہ 9 مء کی صورت میں دیکھا. ایک سیاسی جماعت کے تربیت یافتہ مسلح جتھوں نے قومی و فوجی تنصیبات پر سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ کیا. ان کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں ملک پاکستان کی جگ ہنسائی کروانا مقصود تھا. جنگ 1965 میں اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک پاکستان کی سرحدوں کا تحفظ کرنے والے عظیم شہدائ کی یاد گاروں تک کو نہ بخشا گیا. ایسا فعل تو ملک دشمن بھی نہیں کرتا. وہ بھی اپنے مخالف کی آخری آرام گاہ کا احترام کرتا ہے. اسی طرح سے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا. فوجی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی، انتیلی جنس ایجنسی کے آفس سمیت پاکستان فضائیہ کی ائیر بیس پر حملہ کیا گیا. وہاں پر موجود فوجی تنصیبات کو نقصان پہچانے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی بے حرمتی کی گئی. جنونیت کا یہ سلسلہ یہی نہیں رکا. انہوں نے محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ذاتی رہائش پر دھاوا بولا. لوٹ مار کی. اور اسے نذر آتش کر دیا. کوئی ان سے پوچھے.. کہ یہ سب کچھ کرکے وہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے. کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس کے ہیروز سے سخت نفرت ہے. آج وہ کس منہ سے جشن آزادی کی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں. انہیں لوگوں کے دوغلے پن نے ملک کو ترقی کے راستہ پر گامزن نہیں ہونے دیا. یہ مفاد پرست ٹولہ صرف اور صرف اپنی ذات اور مفادات کے بارے میں سوچتا ہے. اختلاف رائے ہونا جمہوریت کا حسن ہے. مگر اختلاف رائے میں اس حد تک چلے جانا. کہ ملکی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ تک کے سنگین جرائم سرانجام دینا. کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں. اس فعل کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا. لاھور میں جناح ھاؤس کے دلخراش واقعات نے پوری قوم کو خون کے آنسو رولا دیا. اس سانحہ نے قوم کو سوچنے پر مجبور کر دیا. کہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کوئی اس حد تک بھی گر سکتا ہے. قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی سے نجات دلوانے کے لیے دن رات سیاسی جدوجہد کی. ان کی عظیم سیاسی جدوجہد نے برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ آزادی کو بیدار کیا. ہر طرف ایک ہی نعرہ گونجتا تھا. ہم لیکر رہے آزادی ہے حق ہمارا آزادی، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ. اس جذبہ آزادی کے آگے برطانوی سامراج ٹھہر نہ سکا. بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کی نوید سنائی گئی. یہ دنیا کی عظیم سیاسی جدوجہد تھی. جس نے دنیا کی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا. اس عظیم اور لازوال سیاسی جدوجہد کا اعتراف غیر ممالک بھی کرتے ہیں. مگر ہمارے کچھ نادان لوگ اس جدوجہد کے قومی ہیرو کی رہائش گاہ پر حملہ آور ہو کر اس عظیم سیاسی جدوجہد کی نفی کر رہے ہیں. اسی طرح کا ایک دلخراش واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا. جہاں ایک بیوہ خاتون نے باعزت ذریعہ معاش اور کم عمر بچوں کی پرورش کی غرض سے اپنے رہائشی گھر میں جناح ہاسٹل کے نام سے ایک گرلز ہاسٹل بنا رکھا ہے. حوا کی بیٹی شاید اس بات سے لاعلم تھی. کہ اس ملک میں ایک ایسا جنونی طبقہ بھی بستا ہے. جس کے آباؤ اجداد نے انگریز سرکار کی
غلامی اور تلوے چاٹ کر زندگی بسر کی. ان کے خون میں یہ غلامی رچ بس گئی ہے. یہ آج بھی ذہنی طور پر انگریز سرکار کے غلام ہیں. اس لیے یہ محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے دلی طور پر نفرت کرتے ہیں. اس خاتون کی اپنے قومی ہیرو سے محبت کا اظہارِ تھا. جو اس نے اپنے گرلز ہاسٹل کا نام قومی ہیرو کی مناسبت سے رکھا. یہی اس کا جرم بن گیا. جنونی اور ذہنی غلام نسل سے یہ برداشت نہ ہو پایا. کہ ہمارے علاقہ کی حدود میں جناح نام سے کوئی ادارہ کیوں چل رہا ہے. ایس ایچ او گلبرگ فیصل آباد نے علی الصبح تین بجے گرلز ہاسٹل پر بغیر لیڈی کانسٹیبل کے غیر قانونی چھاپہ مارا. اس نے اپنے شیر دل جوانوں کے ہمراہ گرلز ہاسٹل کا بیرونی دروازہ توڑا، اور ہاسٹل میں داخل ہوکر کمروں کے دروازے توڑ کر سوئی ہوئی لڑکیوں کو زبردستی اٹھایا.
چاردر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا. بلکہ لڑکیوں کو ہراساں بھی کیا. انہیں پولیس وین میں ڈال کر رات کے اس پہر تھانے لے گیا. تھانے میں اس وقت کوئی لیڈی ملازم ڈیوٹی پر تعنیات نہ تھی. تمام لڑکیاں اچھے اور پڑھے لکھے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں. خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں. یہ اس ہاسٹل میں صرف اور صرف حصول تعلیم اور باعزت ذریعہ معاش کے لیے قیام پذیر ہیں. صبح گیارہ بجے ایس ایچ او نیان معصوم لڑکیوں سے سادہ کاغذ پر دستخط و نشان انگوٹھا کروا کر انہیں دھمکیاں دیکر جانے کی اجازت دی گئ. یہ قوم کی بچیاں انصاف لینے کے لیے آر پی او فیصل آباد کے آفس گئ. تو انہیں وہاں سے دھکے دیکر نکال دیا گیا. انہوں نے فیصل آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کی. اس پریس کانفرنس کی وجہ سے پولیس کے اعلیٰ افسران نے ایس ایچ او کو لائن حاضر کر دیا. مطلب پٹی بھائی کو بچانے کی پوری کوشش کی. صوبہ پنجاب پولیس کے سربراہ عدل جہانگیری سے بہت متاثر ہے.
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے بھی عدل جہانگیری کی یاد تازہ کرتے ہوئے. ایک ایمرجنسی فون نمبر
1787 لوگوں کی شکایت سننے کے لیے مختص کر رکھا ہے. جس پر فون کرنے پر کمپیوٹر طویل انتظار کرواتا ہے. کہ تمام لائنیں مصروف ہیں. اگر خوش قسمتی سے فون مل جائے. تو انتہائی خوبصورت اور میٹھی آواز میں کوئی لڑکا یا لڑکی بولتے ہیں. جو آپ کی شکایت سن کر چوبیس گھنٹے میں واپس فون کرنے کا کہتے ہیں. ستم ظرفی کا عالم دیکھے. یہ شکایت اسی آفیسر کو بھیج دیتے ہیں. جس کے خلاف شکایت ہوتی ہے. مطلب دودھ کی رکھوالی بلے کو بیٹھا دیتے ہیں. اس ایمرجنسی فون نمبر کا فائدہ تب ہے. کہ فیصل آباد سے شکایت وصول ہو. تو لاھور کا کوئی اعلیٰ آفیسر اس کی انکوائری کرے. مگر شاید یہ سارا ٹوپی ڈرامہ محض ایک دکھاوا ہے. اس کا مقصد عوام کو انصاف کی فراہمی نہیں. اس بیوہ خاتون نے متعدد بار آئی جی آفس کے ایمرجنسی نمبر پر فون کرکے اپنی شکایت کا اندراج کروایا ہے. مگر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی. ایس ایچ او اب دبے الفاظ میں نجی محفلوں میں اظہار کرتا ہے. کہ مجھ سے یہ غیر قانونی کام اعلیٰ پولیس آفیسر نے اپنے ایک دوست کو خوش کرنے کی غرض سے کروایا تھا. اس مظلوم خاتون اور ہاسٹل کی لڑکیوں نے اب انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے. دیکھے اب عدالت اس طاقت ور مافیا کے خلاف ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتی ہے. کہ نہیں. نگران وزیر پنجاب محسن نقوی خود فیصل آباد کی دھرتی کے سپوت ہے. انہیں اس زیادتی پر فی الفور ایکشن لینا چاہیے . ان کالی بھیڑوں کو جب تک نکیل نہیں ڈالی جائے گی. یہ معاشرے میں ایسے ہی دندناتے پھیرے گی . اور معصوم بچیوں کی عزت کو تار تار کرے گے.چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ، وزیراعلیٰ پنجاب، سوشل سوسائٹی اور میڈیا سے التجا ہے. کہ ایسے جنونیت پسندوں کے خلاف موثر اور بھوپور مہم چلائے . تاکہ آیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوسکے . آج ایک بیوہ اہل اقتدار سے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے. اسے انصاف دیا جائے۔ آئیے بحیثیت قوم اس جنونیت کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے.