کالم:لفظوں کا پیرہن
تحریر:غلام شبیر عاصم
شعری اور نثری تخلیق کا تعلق اگر سیکھنے سکھانے سے ہوتا،قدرتی طور پر ودیعت شدہ صلاحیت نہ ہوتی تو جس کا دل چاہتا شاعر اور ادیب بن جاتا۔اور پھر اس صلاحیت کی فی زمانہ بے قدری دیکھ کر اس سے بہت جلد جان چھڑوا لیتا۔جو لوگ تخلیق کار نہیں ہیں،وہ چاہتے ہوئے بھی لاکھ جتن کرنے کے باوجود بھی تخلیق کار نہیں بن سکتے۔اور جن پر اللہ پاک کا یہ انعام ہے وہ کوشش کے باوجود بھی اس روگ سے آزاد نہیں ہوسکتے۔میرا تو یہ کہنا ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے وہ اسی وقت سے تخلیق کار ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔یہ الگ بات کہ اس کے اندر کا لکھاری کسی وقتِ خاص پر ظاہر ہوتا ہے۔یہ کوئی مستری یا بڑھئی کا کام نہیں کہ دو چار سال مشقت کرنے سے انسان سیکھ جائے۔یہ خیال گری،لفظوں کے ساتھ کھیلنا،ایک عام سی شے کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر خاص کردینا،لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دینا،مشکل ترین اور انسانی مزاج کے میلان کے متضاد کیفیات و مناظر کو لفظوں سے مرصع کرکے انسان کے رگ وپے میں بسا دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔لیکن ان ساری حقیقتوں اور انفرادیت کے باوجود بھی ہمارے ہاں تخلیق اور تخلیق کار کی قدر نہ ہونے کے مترادف ہے۔ایک فاتحہ خوانی کے موقع پر میری موجودگی میں اخبار میں چھپے ہوئے میرے کالم کو دو تین فاتحہ خوانوں نے پڑھ کر میری تعریف کرنے یا سراہنے کے بجائے مجھ پر ہتک آمیز سوالوں کی بوچھاڑ کردی،شاید ان کے اندر برادی ازم کا کوئی تعصب تھا یا کوئی حسد کہ وہ چار لفظ کیوں نہیں لکھ سکتے۔چاچے دِتْو نے کہا کہ آپ کیوں لکھتے ہیں،کیا فائدہ ہے لکھتے رہنے کا،اللہ کے بندے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔کیا بنایا ہے آج تک آپ نے اپنا۔باہر نکلو لفظوں کے اس چکر سے،خیالوں کی اس دنیا سے۔آپ سے تو بابے کرمے کا اچھو فائدے میں ہے۔وہ آپ کا ہی کلاس فیلو رہا ہے ناں۔جاو دیکھو وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔مکان دیکھا ہے تونے اس کا؟۔لگتا ہے بندہ کسی کوٹھی میں آگیا ہے۔تجھ سے تو آج تک اپنا"کوٹھا"نہیں بن سکا۔میں گردن جھکائے خاموش تھا۔لگ رہا تھا جیسے چاچا دِتو کسی بْت سے باتیں کررہا ہے۔تایا علیا بھی حْقے کی نے(نلی) منہ سے الگ کرتے ہوئے ہوا میں دھواں بکھیرتے ہوئے کہنے لگا"اچْھو کے کیا کہنے بھئی اس نے تو باپ کی کمر سیدھی کردی ہے۔ایک انجان مہمان نے کہا وہ ہے تو کبوتر باز مگر 50,50 ہزار کی بازی جیتتا ہے۔اختر فوجی طنزیہ ہنسی کے ساتھ مجھے مخاطب ہوئے اور کہا آپ کبوتر باز ہی بن جاو۔میں اندر ہی اندرکڑھنے لگا،سوچنے لگا لکھنے سے باز آوں تو کبوتر باز بنوں۔ویسے بھی میرا اس سے کیا موازنہ وہ کبوتر باز میں مثل شاہین و شہباز۔میں اندر ہی اندر سوال و جواب کے درمیان مٹی سے سونا اور سونے سے مٹی ہوئے جارہا تھا۔میں نے ایک آہ بھری اور من میں سوچا کہ ان کو کیا پتہ کہ ایک کالم نویس یا تخلیق کار کس شان کا مالک ہوتا ہے۔اپنے ان بڑوں کے منہ سے ایسی ناقابل برداشت بیعزتی سن کر اس پر خاموشی اختیار کرنے سے میرے حلق میں کوئی گولا سا اٹک گیا تھا۔شہ رگ گویا دکھنے لگ گئی تھی۔میں سوچ رہا تھا اچْھو کبوتر باز ہے میں فقرے باز ہوں میرا اس سے موازنہ کیسا۔میری تو بولتی بند ہو گئی تھی۔اسی اثناء میں تین چار فاتحہ خوان اور آگئے۔ان میں سے ایک نے میرے خلاف نیوز بولٹن کھلا دیکھ کر مجھ سے پوچھا کیا کرتے ہو بھئی؟ میں نے آہ کو پرے دھکیلتے ہوئے حواس سنبھالے اور کہا کہ میں صاحبِ کتاب شاعر،ریڈیو اینکر،ایک اخبار کا ڈپٹی ایڈیٹر،کالم نویس اور افسانہ نگار ہوں۔اچھا اچھا اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔تو میری سانس میں کچھ سانس آئی کہ ادب شناسی کے اس بنجر ماحول میں میری حمائیت میں بھی چار کونپلیں سر اٹھائیں گی،مگر اس نے یہ پوچھ کر میری جان ہی نکال دی،کہ کام کیا کرتے ہو؟۔بالاخر میں نے تھوڑا غصیلے لہجے میں کہا کہ اتنے مشکل اور عظیم کام کرنے کے بعد بھی مجھ سے یہ سوال کہ کرتے کیا ہو۔شاید اس کے اس سوال میں طنز نہیں تھی۔ایک احساس پنہاں تھا،کہ گھر کا چولھا جلانے کچن چلانے کے لئے کیا کرتے ہو۔میں نے کہا مزدوروں کی ایک یونین کے دفتر میں میڈیا کوارڈینیٹر ہوں۔ ماہوار تنخواہ لیتا ہوں۔اس پر اس نے کہا آج کل اتنی تنخواہ میں گزارا کرنا تو ناممکن ہے،آدھی تنخواہ تو آپ کے آنے جانے کے کرایہ میں کھپ جاتی ہوگی۔اخترفوجی نے پھر ایک فائر کیا کہ بھئی ہم تو آپ کے آنے سے پہلے ہی اس سے سر کھپا رہے ہیں،کہ آپ سے تو اچھو کبوتر باز بہتر ہے۔وہ 50,50 ہزار کی شرط جیتتا ہے۔
بھئی اب آپ ہی بتاو اچْھو کبوتر باز بہتر ہوا کہ یہ اخبار نویس؟مہمان نے کہا صاف ظاہر ہے اچھو کبوتر باز بہتر ہے جو نوٹ تو کما رہا ہے۔شعروں اور کالموں کو چاٹنا ہے۔مفت کی واہ واہ۔بھئی لفظوں سے پیٹ تو نہیں بھرتا ناں۔میں نے بھی اندر ہی اندر یہ تسلیم کرلیا کہ واقعی یہ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔خیالو کو تراشتے لفظوں کو تلاشتے موضوع کو سنوارتے کبھی کبھی جی تو بھرجاتا ہے مگر پیٹ نہیں بھرتا۔واقعی یہ سچ ہے اچْھو کبوتر باز میرے جیسے ہر فقرے باز سے ہزاروں درجے بہتر ہے۔بھئی پیسے کا زمانہ جو ہوا۔کاش عِلم و ادب اور کتاب بِینی کا سنہرا دور بھی آئے۔