منگل ‘ 27 محرم الحرام 1445ھ ‘ 15 اگست 2023ء

شہر شہر گائوں گائوں یوم آزادی کی شاندار تقریبات، پرچموں کی بہار 
الحمد للہ ثم الحمد للہ پورے ملک میں عوام نے یوم آزادی پرجوش طریقے سے منا کر ثابت کر دیا کہ ہم سب ایک ہیں۔ پورے ملک میں گلی کوچوں گھروں اور دکانوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے جو دنیا بھر کو پیغام دے رہے تھے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ اب جن عاقبت نا اندیش گمراہ سیاسی عناصر نے اس موقع پر اپنی نوٹنکی رچانے کی کوشش کی تھی بفضل خدا وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ 
وطن کی محبت عظیم تر ہوتی ہے۔ یہ وطن تو ویسے بھی خدا وند کریم کا وہ بیش بہا عطیہ ہے کہ ہم اس پر جتنی بھی خوشیاں منائیں کم ہیں۔ اس پاک وطن کے قیام پر بہت سے لوگوں اور حلقوں کے دل شدت غم سے پھٹ پڑے تھے۔ ان جیسے لوگ آج تک اسی غم میں تاقیامت مبتلا رہیں گے اور ہمارا پیارا پاکستان یونہی شاد باد رہے گا۔ 
یوم آزادی پر ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر جس جوش و خروش سے 76 واں یوم آزادی منایا گیا وہ مسرت آمیز تھا۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات 12 بجے ہی خلق خدا دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئی۔ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، مظفر آباد، گلگت سمیت تمام  بڑے چھوٹے شہر میں شاندار آتش بازی ہوئی۔ قومی ترانہ پڑھا گیا۔ ریلیاں نکالی گئیں۔ یہ سلسلہ دن رات جاری رہا۔ قومی پرچم کی مناسبت سے بچے اور نوجوان چہروں پر پینٹ کرائے، سبز و سفید رنگ کے لباس پہنے قومی پرچم اٹھائے موٹر سائیکلوں، گاڑیوں میں سوار ریلیوں میں شریک تھے۔ خدا کرے، آزادی کی یہ نعمت سدا یونہی قائم رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ یہ دن مناتی رہیں۔ 
٭٭٭٭٭
یوم آزادی کے جشن میں منچلوں کی ہلڑبازی اور ہر سمت باجوں کا شور 
اب کیا کریں خوشی کا موقع ہو تو نوجوانوں کو قابو کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس بار تو سعودی عرب میں بھی جہاں قانون بھی موجود ہے اور انصاف بھی نوجوانوں نے جس جوش و خروش سے سڑکوں پر نکل کر ریلیاں نکال کر پرچم لہرا کر روایتی رقص کرتے اپنا یوم آزادی منایا۔ پاکستان کے یوم آزادی پر پہلے لاہور اور کراچی میں نوجوانوں کی ہلڑ بازی سڑکوں پر ادھم مچانے کی روایت ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔
 اب ہر شہر لاہور ، کراچی بنا نظر آتا ہے۔ شام ہوتے ہی سرکاری عمارتوں پر چراغاں ہوتا ہے۔ نجی عمارتیں بھی جگمگا رہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ملی نغموں کے دھن پر منچلے پیدل ، گاڑیوں میں موٹر سائیکلوں پر نکل کر جھوم رہے ہوتے ہیں۔ سائیلنسر کے بغیر شور پہلے کیا کم تھا اب تو بگل باجے بجا بجا کر یہ دماغ کھاتے نظر آتے ہیں۔ پولیس بے چاری پکڑ دھکڑ کرتی ہے مگر سیل رواں قابو کب آتا ہے۔ جب ہر شہر دلہن کی طرح سجا ہو تو پھر کیا پٹھان کیا پنجابی کیا سندھی کیا بلوچ سب اس دن رات کو صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچتا ہے باہر نکلتا اور جی بھر کر یوم آزادی کی خوشیاں مناتا ہے۔ خدا کرے یہ قومی وحدت قومی سوچ یونہی قائم رہے اور ہم سب یونہی خوشیاں مناتے رہیں۔
٭٭٭٭٭
نئے وزیراعظم کے نام نے چونکا دیا زمانے کو 
نجانے کتنے دل مسوس ہو کر رہ گئے ہوں گے۔ کتنی آنکھیں بھر آئیں ہوں گی جو سرکاری ہرکارے کی آمد کی منتظر رہی ہوں گی۔ کئی شیروانیاں، واپس تہہ کر کے الماریوں کی زینت بن گئی ہوں گی۔ کئی لوگوں نے تو جناح کیپ بھی خرید کر رکھی ہوئی تھی کہ پہن کر جائیں گے۔ مگر سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ایک ایسا نام سامنے آیا جس پر کسی کی توجہ تک نہ تھی مگر لالہ مادھو رام نے کیا غضب کا شعر کہا تھا 
تاڑنے والے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں 
ڈھونڈ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے
 جنہوں نے نیا وزیر اعظم چننا تھا۔ انہوں نے نہایت چھان پھٹک کر انوار الحق کاکڑ کا انتخاب کیا ہو گا۔ یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ ان کا تعلق ایک پسماندہ صوبے سے ہے۔ جہاں کے لوگ پہلے ہی بات بات پر اپنے گلے شکوے بیان کرتے رہتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر قوم پرست رہنما اختر مینگل نے البتہ ایک پتے کی بات کرتے ہوئے نواز شریف کو خط لکھا کہ کیا اس طرح ہم کسی فریق یا اپنے اتحادی کے لیے مشکلات تو پیدا نہیں کر رہے۔ بلوچستان میں سیاست بلوچ اور پٹھان محور میں گھومتی ہے۔ اس لیے ان کے درمیان طاقت و اقتدار کی رسہ کشی جاری رہتی ہے۔
 اب نئے وزیر اعظم کو دل بڑا کرتے ہوئے خیرسگالی کے طور پر خود اپنے صوبے کے بڑے بلوچ رہنمائوں سے ملاقاتیں کریں۔ ان کا بھرپور تعاون حاصل کرنے کی یقین دہانی لیں تاکہ صوبے میں سب بھائی مل جل کر رہیں اور کوئی مسئلہ نہ ہو۔ 
٭٭٭٭٭
انگریز دور کے قوانین سے جان چھڑانے کیلئے بھارتی پارلیمنٹ میں بل پیش
 یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ خدا کرے ہمارے ہاں بھی انگریزی دور کے ایسے قوانین جو ہماری حمیت اور اقدار سے متصادم ہوں انہیں بھی موجودہ حالات کے مطابق تبدیل کیا جائے یا اگر وہ یونہی غلامی کی یادگار کے طور پر ہم نے سینے سے لگائے ہیں تو انہیں ختم کیا جائے کہ اب ان کی ہمیں ضرورت نہیں۔ ویسے بھی انگریزوں کے دور کی سب سے بڑی مصیبت بیورو کریسی اور قوانین کی شکل میں ہم پر مسلط ہیں ان سے تو بہرحال جان چھڑانا ہو گی۔
 ہمارے پاس اپنے اسلاف اور مذہب کے سنہرے انسان دوست قوانین موجود ہیں تو ہم کیوں نہ ان سے فیض یاب ہوں۔ انگریزوں نے غلام قوموں کو قابو میں رکھنے کے لیے قوانین بنائے تھے۔ اب آزاد ہیں تو ہمیں آزاد قوموں کی طرح ا پنا نظام اور قوانین خود بنانے چاہیے جو ہمیں غلاموں کی نہیں آزاد باشندوں والی زندگی بسر کرنے میں مدد دیں۔ امید ہے ہماری آنے والی منتخب پارلیمنٹ بھی دور غلامی کی اس یادگار سے جان چھڑانے کی کوشش کرے گی۔ مگر یہ آسان نہ ہو گا کیوں کہ کالے انگریز جو آج تک ذہنی اور فکری طور پر انگریزوں کے غلام ہیں ان کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہیں وہ ایسا کرنے نہیں دیںگے۔ اگر ہو گیا تو ہماری بہت بڑی کامیاب ہو گی۔ ہم انگریزوں کے قوانین کی جگہ اپنے اسلامی قوانین کو لا کر ترقی و خوشحالی و امن کی منزل پا سکتے ہیں۔۔۔ 

ای پیپر دی نیشن