بچوں کی خوشی دیدنی تھی اور ماں بھی پھولے نہ سما رہی تھی۔اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم سب خیروعافیت سے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے تھے۔ ائیرپورٹ سے گھر کی طرف روانگی پکڑتے ہوئے ایم الیون سڑک پر آئے تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی جو آنکھوں کی تھکن اتارنے کے لیے کافی تھی ۔ٹریفک کا رش بہت زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود مکمل نظم و ضبط تھا ،کسی کو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جلدی نہیں تھی ، ہر کوئی صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتا نظر آ رہا تھا۔جب کوئی کسی کو پاس کرتا یا تو ہاتھ کے اشارے سے شکریہ ادا کرتے ہوئے گزرتا یا پھر گاڑی کے دونوں اشارے لگا کر شکریہ ادا کرتا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہاں ہر بات پرشکریہ ادا کرنالازمی وملزوم سمجھا جاتا ہے۔جب میں نے ٹریفک کے متعلق رانا سہیل منظور سے سوال کیا توان کا کہنا تھا، فاروق بھائی، یہاں سب سے پہلے آپ کے دائیں سائیڈ والے کا حق ہے کہ آپ نے اس کوراستہ دینا ہے جب آپ راستہ دیں گے تو جانے والا آپ کا شکریہ ادا کرکے جائے گا۔ میرے لیے یہ ایک نئی اور خوش کن چیز تھی۔ میرا قیام ہارلو گلڈن پارک میں تھا جو سٹنسڈیڈ ایئر پورٹ سے دس منٹ کی مسافت پر ہے ۔ جیسے ہی ہم ہارلو میں داخل ہوئے تو ایک لمحے کے لیے ایسے محسوس ہوا جیسے ہم ایک خاموش وادی میں آگئے ہیں جس کو ایک گھنے جنگل نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ ہریالی میری آنکھوں میں سرایت کر چکی تھی اور میرا کچھ دنوں سے مضطرب دِل تھا راحت محسوس کر رہا تھا۔
جیسے ہی گھر پہنچا تو میرے بڑے بھائی رانا جاوید عمر کی کال تھی ۔بھائی جاوید بھی اِن دِنوںلندن میں ہی تھے تو ان کی موجودگی کا احساس بھی دل کو مسرت بخش رہا تھا ۔کھانے سے فارغ ہوکرمیں آرام کرنے کے لیے کمرے میں چلا گیا۔ اگلے دن ہم کچھ دوستوں کو ملنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تو سڑک کے دونوں اطراف جنگل ہی جنگل تھا جس نے لندن کے حسن کو چار چاند لگا دیے ۔مجھے فوراً پاکستان کی موٹر وے یاد آگئی خاص کر لاہور ملتان موٹر وے جس کے دونوں اطراف آپ کو پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی درخت نظر نہیں آئیں گے۔ حالانکہ ہر روز ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں اور پاکستان میں آلودگی کی شرح فیصد پہلے ہی زیادہ ہے جو کہ بہت سارے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔ لندن میں موٹروے پر سفر کرتے ہوئے پاکستان کی موٹروے یاد آگئی۔ میاں نواز شریف نے پاکستانی قوم کوموٹر وے کا تحفہ دیا ،پہلے اسلام آباد ٹو لاہور موٹر وے بنائی اور اب لاہور سے کراچی موٹروے تعمیر کی۔ اس چیز کا اندازہ انسان کو تب ہوتا ہے جب بندہ خود دنیا کے دوسرے ممالک کا سفر کرتا ہے ۔میاں نواز شریف سے موٹر ویز کا کریڈٹ کوئی چاہے بھی تو نہیں لے سکتاکیونکہ اِس منصوبے سے ملک کے موصلات کا نظام بہتر ہوا اور لوگوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک رسائی ملی۔
لندن میں جس علاقے میں بھی گیا مجھے پاکستانی بڑی تعداد میں ملے ۔بالخصوص ایلفرڈ کا علاقہ جہاں جا کر یہ محسوس ہوا جیسے پاکستان میں ہی پھر رہا ہوں۔رانا سہیل منظور نے لندن کی سیر کرواتے ہوئے پاکستان سے آئے کافی لوگوں سے بھی ملوایا۔ خاص کر مجھے ملک احمد (ٹیپو) سے مل کر بہت خوشی ہوئی جن کی پیدائش انگلستان کی ہے لیکن ان کے والدین پاکستان سے ہیں ۔انتہائی عزت دینے اور پیار کرنے والی فیملی ہے ۔ ٹیپو بھائی بھی مجھے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے جب گفتگو کا آغاز ہوا تو ان کی پاکستانی سیاست میں گہری دلچسپی دیکھ کر میں بہت حیران ہوا۔انھیں اردو بہت کم آتی تھی لیکن وہ اپنی اردو کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ قابلِ تعریف ہے ۔پاکستان کے بارے بات کرتے ہوئے ٹیپوبھائی کے اندر ایک دکھ اور درد واضح دکھائی دے رہا تھا ۔ وہ پاکستان کے حالات کے متعلق صرف حکمرانوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہے تھے بلکہ پاکستان کی عوام کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ احمد بھائی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ انھوں نے وہاں گھر بنانے اور کاروبار شروع کرنے کا ارادہ باندھا تھالیکن پاکستانی عوام کو لندن منتقل ہونے کا جنون دیکھ کر وہ شش و پنج کا شکار ہوگئے ۔ان کے ساتھ پاکستان میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔پاکستان میں قیام کے دوران انھیں ایک بینک میں جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں مینیجر سے گفتگو کے دوران ٹیپو بھائی نے بتایا کہ وہ پاکستان میں رہائش اختیار کرکے کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن مینیجر نے جواباً انھیں کہا کہ بھائی، کسی طرح مجھے لندن کا ویزہ لے دیں۔ٹیپو بھائی یہ سن کر بہت مایوس اور پریشان ہو گئے۔
اگلے دن میں نے رانا جاوید عمر کے ساتھ پہلی با ر ٹرین کے ذریعے ریڈ ہل اسٹیشن سے لندن بریج کے لیے سفر کیا ۔ جاوید عمر مجھے بتا رہے تھے کہ اگرلندن میں آپ ٹرین پر سفر کریں گے تو آسانی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک اور ٹرین تبدیل کرنی تھی اور وہ انڈر گرائونڈ تھی جس میں رش بہت زیادہ تھا ۔یہاں دلچسپ بات جو دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ یہاں پر جتنے بھی گورے تھے وہ آتے جاتے سب کو ہیلو ہائے کررہے تھے چاہے وہ کسی کو جانتے ہیں یا نہیں۔ یہ بات جب سے میں لندن پہنچا تھا تب سے ہی میں نوٹ کر رہا تھاکہ آپ کے پاس سے ہر گزرنے والا آپ کو ہیلو ہائے ضرور کرکے گزرے گا چاہے وہ عورت ہو یا مرد ۔ یہاں سے آپ ان کے اخلاق کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ہماری منزل ایجور روڑ تھی جہاں ہم پہنچ چکے تھے۔
جیسے ہی ہم انڈر گرائونڈ ٹرین اسٹیشن سے باہر آئے تو مجھے شیشے سے دھوئیںکی مہک آ رہی تھی جس سے مجھے انداز ہوکہ ہم عربیوں کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ ہماری منزل ہلٹن میٹروپولیٹن تھا۔ جب ہم راستے سے گزر رہے تھے تو ایک کیفے کے باہر ابراہیم طارق شفیع سے اچانک ملاقات ہو گئی ۔ابراہیم طارق شفیع بہت بااخلاق نوجوان ہے ۔وہ محترم طارق شفیع مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ طارق شفیع مرحوم بہت نیک سیرت انسان تھے ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو بہت ہی عاجزی اور انکساری سے ملتے ۔ طارق شفیع مرحوم کی کمی کو میں آج بھی محسوس کرتا ہوں ۔ابراہیم طارق شفیع بھی اپنے والد کی طرح محبت کرنے والی شخصیت ہے اور اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
ہمارا انتظار فیڈرل منسٹر نواب شہریار خان اور سابقہ فیڈرل منسٹر رضا حیات خان ہراج کررہے تھے۔رضا حیات ہراج سے آج میری دوسری ملاقات تھی لیکن آج کی ملاقات بہت دلچسپ اور یادگار تھی ۔رضا حیات ہراج نے اپنے اور مشرف صاحب کے ساتھ گزرے وقت پر بہت بات کی۔ رضا حیات ہراج سے جو بھی سوال کیا انھوں نے مہارت سے جواب دیا اور اس کا پس منظر بھی بتایا کہ کیاوجوہات تھیں کہ مشرف صاحب اِن چیزوں میں پھنس گئے۔ان تین گھنٹوں میں جتنا میں رضا حیات ہراج کو سمجھا تو وہ ایک پاکستانی سیاست کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا اور اپنا تجربہ بھی شیئر کیا ۔اگر میں اُن کی سیاست پر بات کروں تو شاید پھر مجھے کئی کالم لکھنے پڑ جائیں گے۔یہ ایک یادگار رات تھی جس میں میں نے پاکستانی سیاست کے قابل سیاستدان سے بہت کچھ سیکھا ۔اگر کبھی میں نے سیاست پر کتاب لکھی تو رضاحیات ہراج سے کی ہوئی سیاسی باتیں ضرور شیئر کروںگا۔