ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ے نقاب  اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com 

پاکستانی قوم آج اپنا 77 یوم آزادی انتہائی جوش و جذبہ سے منا رہی ہے. ان 77 سالوں پر نظر ڈالی جائے. تو پتہ چلتا ہے کہ اس قوم کو بہت سے نشیبوں و فراز کا سامنا کرنا پڑا. مگر اس قوم نے کبھی ہمت نہیں ہاری. ملک کے معاشی، سیاسی حالات انتہائی ابتر بھی رہے ہیں. مگر زندہ قوم نے کبھی امید کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا. پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر بیرون ملک مقیم ہونے کے لیے جا رہی ہے. دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں. جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک و قوم کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر واپس لوٹتے ہیں. گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک نوجوان لڑکی مومنہ علی طارق سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا. دوران گفتگو پتہ چلا. کہ موصوف نے کنگ کالج لندن سے بزنس مینجمنٹ میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی. اس کے لیے بہت آسان تھا. کہ وہی رہائش پذیر ہو جاتی. اس کی فمیلی مالی طور پر بہت مستحکم ہے. لندن میں اپنی رہائش گاہ ہے. ان سب باتوں کے باوجود اس نے اپنے ملک کو ترجیح دی. اور آپس آکر اپنے فمیلی بزنس کو سنبھالا. شروع میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. مگر اس نے ہمت نہیں ہاری. اپنی لگن اور محنت سے فمیلی بزنس کو دوام بخشا. آج ان کا فیملی بزنس چار گنا بڑھ چکا ہے. بلاشبہ اس کے والدین اس پر رشک کرتے ہیں. شروع کے ایام میں جب کبھی بھی یہ مایوسی کا شکار ہوئی. اس کی بڑی بہن انیلہ طارق اس کی ڈھارس بڑھائی. اسے مشکلات سے لڑنے کا درس دیا. جس پر عمل پیرا ہو کر اس نے ان گنت کامیابیوں کو سمیٹا. یہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین اور بڑی بہن کو دیتی ہے. جن کی بدولت اس نے اپنے خاندانی کاروبار کو نہ صرف سنبھالا. بلکہ اس کو دن دگنی رات چگنی ترقی دی. اپنی ان کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے. اس کا کہنا ہے. کہ ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں. بس سچی محنت اور لگن کی ضرورت ہے. ملکی سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے. اس کا کہنا تھا. کہ ملکی سیاسی حالات جیسے بھی گھمبیر کیوں نہ ہو. اس میں بہتری کی امید باقی ہے. بس اس کے لیے پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا. سیاست اتنی بھی بری چیز نہیں. جتنا ہم نے اسے سمجھ لیا ہے. سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا جائے. تو خدمت خلق کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں. کاروبار میں بے شمار کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم ہے. ہماری قوم مایوسی کا شکار ہے. اسے اس مایوسی کی کیفیت سے باہر نکالنا ہو گا. جس دن پڑھے لکھے نوجوانوں نے سیاست کے عملی میدان میں قدم رکھا. اسی دن قوم کی تقدیر بدل جائے گی. ہم پڑھ لکھ اچھی روزگار کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں. ہماری نسلیں پیچھے تاریکی اور مایوسی کی دلدل میں پھنسی رہتی ہیں. ہمیں صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچنے کی بجائے. اپنی قوم کے لیے بھی سوچنا ہوگا. ہماری خداداد صلاحیتوں کی اسے ضرورت ہے. میں نے جب لندن میں اپنی تعلیم مکمل کی. تو میرے گھر والوں نے مشورہ دیا. کہ یہی کاروبار شروع کر دو. مگر میری بڑی بہن انیلہ طارق نے مجھے واپس وطن آنے کا مشورہ دیا. ان کا کہنا تھا. کہ مال و دولت تو ہمارے پاس پہلے ہی بہت ہے. تم نے وہاں رہ کر پیسہ ہی کمانا ہے. اس سے کیا حاصل ہوگا. واپس او¿. اور مایوس حالات سے لڑ کر اپنی منفرد پہچان بناو¿. میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا. اور واپس آکر اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھالا. موجودہ بے یقینی کی صورتحال میں میرے لیے کاروبار کو سنبھالنا ممکن نہ تھا. میری بڑی بہن نے قدم بہ قدم میری راہنمائی فرمائی. میں نے نہ صرف اپنے خاندانی کاروبار کو دوام بخشا. بلکہ الگ سے خود کا کاروبار بھی کیا. جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی. میں نے ایک چیز پر بہت غور و فکر کیا ہے. کہ ہم بحثیت قوم دین اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں. ہم پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں. جب میں لندن میں زیر تعلیم تھی. تو جب کبھی مایوسی محسوس کرتی. تو نماز پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرتی. جس سے مجھے دلی سکون ملتا. اللہ بارک تعالی تو قدم بہ قدم ہماری راہنمائی فرماتا ہے. بس ہم لوگ ہی اس کی رحمت اور کرم سے مایوس ہو جاتے ہیں. پاکستان آکر بھی میں نے یہی عادت بنا رکھی ہے.. میں پانچ وقت نماز پڑھتی ہو. تلاوت قرآن پاک کرتی ہو. کوشش کرتی ہو. کہ ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھو. اس طرح سے مجھ میں نیا حوصلہ پیدا ہوتا ہے. جب میرا رب فرماتا ہے. کہ تو کوشش کر تیری محنت کا صلہ دینا میرا کام ہے. تو پھر میں اپنے رب کی رحمت سے مایوس کیوں ہو. رب تعالی سے میرے اسی تعلق نے مجھے کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے. مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی. دین اسلام انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے. میں اپنی حیثیت کے مطابق ضرورت مند اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتی ہو. اس کے لیے میں نے الگ سے ایک شعبہ بنا رکھا ہے. جو ضرورت مندوں کی مدد خفیہ طریقہ سے کرتا ہے. یہ میرے اور میرے رب کے درمیان کاروبار ہے. جس کا منافع اور صلہ وہ مجھے اپنی بے پناہ رحمتوں سے نواز کر دیتا ہے.
کامیابیوں کو سمیٹنے کے بعد دل کرتا ہے. کہ اس ملک و قوم کے لیے کچھ کیا جائے. اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے سیاست کے میدان میں اترنے کا ارادہ کیا ہے. میرے والدین نے بھی ملکی سیاست میں حصہ لیا ہے. انہوں نے ہمیشہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا ہے. ان کے بعد میری بڑی بہن انیلہ طارق بھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہے. انسانیت کی خدمت ہمارے خون میں رچی بسی ہے. دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود ہمارا خاندانی شیوہ ہے. اس سے ہم کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتے. . انشائ اللہ میں اپنے آباو¿ و اجداد کے انسانیت کی خدمت کے مشن کو آگے لیکر چلو گی. عملی سیاست میں میرا آنے کا مقصد ہی عوام کی فلاح و بہبود ہے. اگر میں اپنی تعلیم اور تجربہ سے خاندانی کاروبار کو وسعت دے سکتی ہو. تو اپنی ان صلاحیتوں سے ملک و قوم کے لیے کیوں کچھ نہیں کر سکتی. میری سوچ ہے. کہ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں. دوسروں کے لیے جینا سیکھے. انسان جتنا مرضی پیسہ کما لے. اس کی ہوس پوری نہیں ہوتی. اسے ذہنی سکون میسر نہیں ہوتا. قلبی اور ذہنی سکون کے لیے خلق خدا کی خدمت ضروری ہے. خدارا اپنے بچوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے لازمی بھیجے. مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرے. کیونکہ دینی تعلیم ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے. دین سے دوری کی وجہ سے ہی آج امت مسلمہ مشکلات کا شکار ہے. اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے اب میں اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا منشور زندگی بنانا چاہتی ہو. اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس مقصد حیات میں کامیاب کرے. میرا ملکی سیاست میں قدم رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے. اس نوجوان لڑکی کی باتوں اور جذبات نے مجھے بہت متاثر کیا. اس سے ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا. کہ ملک پاکستان قائم دائم رہنے کے لیے بنا ہے. اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے فرشتہ صفت لوگ پیدا کرتا ہے. جو مایوسی میں بھی امید کی کرن بنتے ہیں. یہ لڑکی ان نوجوانوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے. جو ملکی حالات سے مایوس نظر آتے ہیں. ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ اگر ملک مشکلات سے دوچار ہے. تو اسے ان مشکلات سے نجات بھی ہم نے ہی دلوانی ہے. بحثیت قوم ہمیں اس نوجوان لڑکی جیسے جذبہ کی ضرورت ہے. آئیں اس جشن آزادی کو مناتے ہوئے. عہد کرے کہ ہم نے افرادی سوچ کو چھوڑ کر اجتماعی سوچ کو پروان چڑھنا ہے. اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے.
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ای پیپر دی نیشن