''سیل رواں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی''

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

بابا کرمو سے خصوصی ملاقات ہوئی بہت خوش نظر آئے۔کہنا تھا کہ اس بار پاکستان کی 77ویں سالگرہ کے موقع پر میاں چنوں سے متعلق غریب نوجوان ارشد ندیم نے اولمپکس میں جیویلین تھرو میں عالمی ریکارڈ توڑا اور سونے کا میڈل حاصل کیا۔اس جیت سے یوتھ کو یہ پیغام ملا ہے کہ ترقی کے لے والدین کا امیر یا بڑے عہدے پر فائز ہونا ضروری نہیں۔ بچے اپنی لگن محنت سے ستاروں پہ کمند ڈال سکتے ہیں۔چیف منسٹر پنجاب مریم نواز دس کروڑ اور نوے لاکھ کی کار لے کر میاں چنوں پہنچیں۔13اگست کو وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی دعوت پر خصوصی طیارے پر ارشد ندیم اور انکی فیملی کو اسلام آباد لایا گیا۔ پندرہ کروڑ انعام بھی دیا۔ بقول حفیظ جالندھری
 حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
 بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں 
یہ نوجوان میاں چنو ںکے ایک غریب گھرانے میں پلا بڑا۔ اس نے اپنی محنت، اورلگن سے ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر دیا۔صدر آصف علی زرداری نے سول ایوارڈ کی منظوری دی جو 23مارچ کو دیا جائے گا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کھیل کا یہ منظر چییرمین پرائم منسٹر یوتھ پروگرام رانا مشہود کے ساتھ دیکھا۔ وزیر اعلی نے پانچ کروڈ اور گورنر سندھ نے دس لاکھ کے انعام کا اعلان کیا۔اب بھی بے شمار انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ ادھر چند وہ بھی ہیں جو بڑی تنخواہیں بڑے مراعات پاتے رہے لیکن آئین اور قانون کے مطابق نوکریاں نہ کر سکے اور فیصلے نہ لکھ سکے جس سے اپنا اور اپنے اداروں کا نام بد نام کرتے رہے۔ بنگلہ دیش کی حالت زار سے سبق سیکھنے کے بجائے یہاں کے حالات بھی ویسے کرنے کے خواب کچھ نادان دیکھتے ہیں۔ اللہ نہ کرے ان کی یہ خواہش پوری ہو۔ حالات کیسے بھی ہوں "شکر" ہمیشہ " شکوے " سے بہتر ہوتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے بارے میں بابا کرمو نے کہا بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد 28 ستمبر 1947 کو تنگیپورہ بنگال میں شیخ مجیب الرحمن کے گھر پیدا ہوئیں۔17 نومبر 1967 میں ڈھاکہ میں ان کی شادی ہوئی تھی جس میں سندھ کی نامور روحانی اور علمی و ادبی شخصیات مخدوم امین فہیم ، پیر علی محمد راشدی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیت سردار عطاءاللہ خان مینگل شریک ہوئے ۔ شرکائے تقریب کی باہمی مشاورت سے بلوچ نوجوان سردار عطائ اللہ مینگل نے 20 سالہ دوشیزہ شیخ حسینہ اور سید واجد علی شاہ کا نکاح پڑھایا۔ سید واجد شاہ سے ان کے دو بچے ہیں بیٹا سجیب واجد اور بیٹی صائمہ واجد ہیں۔15اگست 1975 کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے بنگلہ دیش کے بانی صدر اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان اور اس کیاہل خانہ کو قتل کیا۔تاہم شیخ حسینہ اور اس کی بہن شیخ ریحانہ اس رات برطانیہ میں تھیں اس لیے یہ دونوں زندہ بچ گئیں۔ اپنے والدشیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد وہ اور ان کی بہن ریحانہ ہندوستان چلی گئیں وہاں انہیں سیاسی پناہ دی گئی۔ شیخ مجیب کے بعد جنرل حسین محمد ارشاد نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1981 میں شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش واپس آ کر اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔وہ 3 بار صدرعوامی لیگ کی حیثیت سے اپوزیشن لیڈر بنیں اور تین مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنیں۔ ان کے دور میں ملک کی معیشت مسستحکم ہوئی جس کی اہم وجہ ڈاکٹر محمد یونس کی سماجی خدمات تھیں۔ ڈاکٹر یونس پر بھی مقدمات کی تعداد 100 سے بھی زائد تھی ڈاکٹر یونس کو مجبور ہو کر ملک چھوڑنا پڑا۔ جب 5 اگست 2024 کو طلبہ تحریک عروج پر پہنچ گئی طلبہ مشتعل ہجوم نے وزیر اعظم ہاوس کا رخ کیا تو آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی مدد سے وہ اپنی بہن ریحانہ کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں فرار ہو کر ہندوستان پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ شیخ حسینہ کے شوہر اٹامک انرجی سائنسدان سید واجد شاہ نے 9 مئی 2009 میں اس جان فانی سے کوچ کیا۔بابا کرمو نے کہا کہ یاد رکھیں شریعت میں رحم ہے فطرت میں نہیں۔ قانون فطرت ہے جو کچھ ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ قانون فطرت کے اندر بخشش نہیں ہے رحم نہیں ہے۔یہ لا آف نیچر ہے جو دوسروں کے لیے گڑھے کھودتا ہے وہی اس میں گرتا بھی ہے۔ حکومتیں نوکریاں آئین اورقانون کے مطابق چلائیں گیتو چلیں گی۔
مجید امجد یاد آگئے
سیل رواں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاو تاج کے سب سلسلے گئے
بابا کرمو سے پوچھا چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی میں یہ کیوں کہا ہے عدلیہ سیاسی بحران کی ذمہ دار ہے۔اس لئے کہ ان بھی ان کے فیصلے ماضی کے فیصلوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کے نانا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کیا جوڈیشل مرڈر نہیں ہوا تھا۔ کیا سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو غلط فیصلے پر گھر نہیں بھیجا گیا تھا۔کیا گیارہ سال آصف علی زرداری ( نیلسن منڈیلا) کو بے گناہ جیل میں نہیں ان عدالتوں نے رکھا تھا۔ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کیا کسی پارٹی نے چھینا تھا یا عدالتوں کا فیصلہ تھا۔کیا کوئی جج اپنا فیصلہ آئین قانون کو نظر انداز کر کے لکھ سکتا ہے؟ کیاجوڈیشری نے سیاسی بحران خود کا پیدا نہیں کیا۔اسمبلی نے ابہام کو دور کرنے کیلیے قانون سازی کی اب ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ بابا کرمو نے کہا ہمارے ہاں بد قسمتی سے عوام میں شعور نہیں آیا۔ بابا کرمو سے پوچھا آپ یہ کیسے کہتے ہیں کہ عوام میں شعور نہیں ہے۔ جواب دیا کہ عوام میں اگر شعور ہوتا تو اپنی پارٹی اپنے لیڈروں پر تنقید کر رہے ہوتے۔ جب یہ اپنی پارٹی پر تنقید کرنا شروع کریں گے تو پھر ہم کہہ سکیں گے کہ ان میں شعور بیدار ہو چکا ہے مگر ابھی نہیں۔ بابا کرمو نیکہا اگر فوجی افسران پر قانون کے مطابق کورٹ مارشل ہو سکتا ہے تو ان ججز پر جو غیر قانونی غیر آئینی سیاسی فیصلے کرتے ہیں ان کے لیے بھی کوئی فورم کیوں نہیں۔ فارن سے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل فورم بنالیں۔یہ ججمنٹ ان کے سامنے پیش کریں کہ کیا انہوں نے یہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے لکھے تھے۔ لگ پتہ جائے گا!! بابا کرمو نے پوچھا کیا فیض حمید کا کورٹ مارشل کا ٹرائل میڈیا پر دکھایا جائے گا ؟بابا کرمو کا کہنا تھا ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ ہے کہ بڑے عہدوں پر ''چھوٹے ''لوگ آجاتے ہیں آو اس سالگرہ پر ہم عہد کریں کہ جس نے بھی آئین اور قانون پر عمل نہ کیا اس کو سزا دی جائے گی۔ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ قانون پر عمل ضرور کرے۔ اسی طرح جو وزیراعظم صدر ،وزرا، سینٹ اسمبلی ممبر وکلا سترہ گریڈ کے ملازمین کو ہاتھ کڑی نہ لگائی جائے۔انہیں گلے میں پیلے نیلے سرخ رنگ کے کارڈ پہنا کر عدالتوں میں پیش کیا کریں،انہیں جیلوں کے بجائے گھروں میں قید رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...