منیر نیازی نے اپنی شاعری کے مجموعے ”چھ رنگین دروازے“ کا انتساب خوبصورت پاکستان کے نام کیا تھا۔ ایک سوال کالم نگار کے دل و دماغ میں اکثر کلبلاتا رہتا ہے کہ کیا خوبصورت پاکستان کے چہرے سے حسن و خوبی کی ادائیں نوچنے والوں میں صرف بیورو کریٹس، سیاستدان اور توپ بندوق والے ہی شامل ہیں؟ کیا اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک نہیں جنہوں نے کبھی ووٹ دے کر اور کبھی لا تعلقی برت کر ان موروثی سیاستدانوں کو سپورٹ کیا ہے؟ یہ لوگ ملک پر پہلے روز سے ہی قابض ہیں۔ لیکن 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوام نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر عمران خان کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ مختلف انتخابی نشانات کے تحت الیکشن لڑنے والے عمران خان کے امیدواروں کو ڈھونڈ نکالنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں تھا۔ یہ عوام کا موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ عوام دستیاب قیادت سے ہی کوئی انتخاب کر سکتے تھے۔ جو لوگ ملک سے بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ نکلے ہیں۔ جن کے پاس ملک سے بھاگنے کے وسائل نہیں وہ یہاں بیٹھے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ یہ ہے ہماری 80 فیصد آبادی کا قصہ کہانی۔
لیکن عمران خان بھی کیا ہے؟ لکھنے والے کا فرض ہے کہ وہ سطحی مشاعرے سے آگے بڑھ کر اصل کہانی واضح کرے۔ گھن آتی ہے یہ سوچ سوچ کر کہ عمران خان نے اپنے اقتدار میں عرب بادشاہوں کی طرف سے تحفے میں ملی ہوئی قیمتی گھڑیاں بیچ کھائیں۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی سنگین مالی سکینڈل ڈھونڈے سے نہ مل سکا ہوگا۔ تبھی معاملہ گھڑیوں تک اور ایک یونیورسٹی کیلئے حاصل کی گئی زمین تک رہا۔
بات پیچھے سے شروع کرتے ہیں۔
ایک شام کالم نگار کی جاوید ہاشمی سے فون پر لمبی گفتگو ہوئی۔ وہ اپنا درد دل سنانے کے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے۔ میری عمر بمشکل 28برس تھی کہ جنرل ضیاءالحق نے مجھے وفاقی کابینہ میں لے لیا۔ کراچی سے سیٹھ احمد داود میرے پاس آئے۔ جہاں تک کالم نگار کا حافظہ کام کرتا ہے، انہوں نے یہی نام لیا تھا۔ وہ کہنے لگے۔ اس ملک کی آئندہ سیاست صرف شوگر ملز مالکان کے گرد ہی گھومے گی۔ وہ اسے جاگیرداری کی ایک جدید شکل قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی ترغیب دی کہ زمینیں تو جدی میرے پاس ہیں ہی، میں بھی شوگر مل لگانے کا پرمٹ حاصل کر لوں۔ ایک زرعی ماہر کے مطابق گنے کی فصل پانی کی بین الاقوامی قیمت کے مطابق ہمیں کوئی خاص فائدہ مند نہیں لیکن ملکی مفاد سے قطع نظر دھڑا دھڑ شوگر ملز لگائی گئیں۔ اس وقت سیٹھ احمد داود کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک لوٹ کھسوٹ کا ایسانظام آنے والا ہے جو یہ سب پہلی چوری ڈکیتیوں کو مات کر دے گا۔
اس وقت مہنگی بجلی کے ہوشربا بلوں نے پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ معاشرے میں بے چینی، بدامنی، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام سیاسی اور معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ بجلی کی ناقابل برداشت قیمت صنعتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ چھوٹی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور بڑی صنعتیں بندش کے دہانے پرہیں۔ ملک کے چوٹی کے صنعتکار پریس کانفرنسوں کے ذریعے اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔پاکستان میں آئی پی پیز کے آنے سے پہلے بجلی کا بحران نہیں تھا۔
1994ءمیں جب بجلی بحران نے شدت اختیار کی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے پہلی مرتبہ آئی پی پیز کا تجربہ کیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مبشر حسن کی شدید مخالفت کے باوجود یہ منصوبے شروع کر دیئے گئے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کہتے تھے، یہ کام آنے والی نسلوں کے گلے میں طوق ثابت ہو گا۔ پھر وقت نے ان کی یہ پیشین گوئی درست ثابت کر دی۔
میاں نواز شریف نے 1997ءمیں مزیدپاور پلانٹ لگانے کی منظوری دے دی۔ پھر مشرف دور میں مزید پاور پلانٹس لگائے گئے۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھی نئے پاور پلانٹس لگانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر2013سے 2018تک میاں نواز شریف کی حکومت نے آئی پی پیز کے معاہدوں کی گویا لائن ہی لگا دی۔ پھر عمران خان کے دور میں بھی تیس کے قریب پاور پلانٹس لگائے گئے۔ میڈیا پر جاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تین پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بجلی بالکل پیدا نہیں کر رہے۔ لیکن ادائیگیاں انہیں بھی کی جا رہی ہیں۔ سات پاور پلانٹس ایسے ہیں جو 25فیصد سے کم بجلی پیدا کرتے ہیں۔ 60پلانٹس ایسے ہیں جو 25فیصد تک بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن انہیں Capacity Paymentکے نام پر پوری ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2013سے لے کر 2025تک بجلی کی قیمتوں میں 350فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ کیا اس دورانیے میں عوام کی آمدنی میں بھی ایسا کوئی اضافہ ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں میں ہے۔ اس موت کے سامان سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ ہم ان معاہدوں کی شرائط اور انہیں کرنے والوں کو ننگا بھی نہیں کر سکتے۔ فیض احمد فیض کی طرح یہ پوچھ بھی نہیں سکتے:
لاو تو قتل نامہ مِرا ہم بھی دیکھ لیں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
سینٹ کمیٹی نے پیمرا کو آئی پی پیز کے فرانزک آڈٹ اور بجلی بنائے بغیر کھربوں کمانے والے مالکان کے نام بتانے کی ہدایت تو کی ہے۔ اب دیکھئے ہوتا کیا ہے؟ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کہتے ہیں۔ آئی پی پیز کے معاہدوں کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ان معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ہم ریکو ڈک کی طرح 900ملین جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آئی پی پیز کی پوری کہانی میں صرف ایک اچھی خبر ہی عوام تک پہنچی ہے۔چھی خبر یہ ہے2021ءمیں عمران حکومت نے آئی پی پیز کو بلا کر ان سے ڈالر ریٹ 148روپوں پر فکس کرلیا۔آج اگر یہ ادائیگیاں 300روپو ں کے حساب سے کرنا پڑتیں تو ہمارا کیا حشر ہوجاتا۔