میری حکومت امریکا نے گرائی۔ حسینہ واجد
یہ ایک بڑا اچھا ہتھیار اب سیاستدانوں کے ہاتھ آ گیا ہے۔ جسے ہم میڈ ان امریکا کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ شروع بھی امریکا سے ہوتاہے ختم بھی امریکا یہ ہوتا ہے۔ جب یہ سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو کوئی بھی بھولے سے یہ نہیں کہتا کہ اس کو لانے میں کس کا ہاتھ ہے مگر جونہی انھیں ایوان حکومت سے نکالا جاتا ہے۔ یہ جھٹ پٹ ہی مشہور عام بیانیہ دہراتے ہیں کہ ’مجھے امریکا نے نکالا، میری حکومت گرانے میں امریکا کا ہاتھ ہے‘ یہ وہ حکمران ہوتے ہیں کہ جب تک یہ اقتدار میں ہوں تو امریکا کی ایک نظر عنایت کے لیے مرے جاتے ہیں۔ کوئی رات رات بھر امریکی صدر کے ٹیلی فون کے انتظار میں سو نہیں پاتے۔ بقول شاعر
وہ جلد آئیں گے یا دیر سے خداجانے
میں گل بچھاو¿ں یا کلیاں بچھاو¿ں بستر پر
ان کی ساری ساری رات کروٹیں بدل بدل کر کٹتی ہے۔ اسی طرح جن کے اقتدار میں آنے کی وجہ امریکی چھٹے بحری بیڑے کی پاکستان آنے میں تاخیر بنی ہو۔ وہ اس امریکی امداد کے لیے مرے جاتے ہیں تاکہ ملک کو ترقی دے سکیں۔ حیرت کی بات دیکھ لیں ایک صاحب نے تحریک عدم اعتماد کے خوف سے استعفے دیے مگر بیانیہ گھڑا کہ امریکا نے سائفر بھیجا تھا کہ اسے ہٹاو¿۔ اب تو وہ سائفر بے چارہ بھی نجانے کہاں کھو گیا ہے۔ اسی طرح حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی عوام نے طاقت کے بل بوتے پر نکالا بلکہ ملک دے بھگایا۔ اب وہ کہہ رہی ہیں کہ ایک جزیرہ امریکا کو فوجی استعمال کے لیے نہ دینے پر امریکا نے ان کی حکومت گرائی ہے۔ حالات و واقعات کی مماثلت دیکھ کر تو لگتا ہے ، جلد ہی سائفر کی طرح اڈے والی کہانی بھی ماٹھی پڑ جائے گی اور حسینہ واجد بھی امریکی فرموں کی مدد سے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے اور امریکی سینیٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھاری رقوم دے کر لابسٹ فرموں کی خدمات حاصل کریں گی، یعنی امریکا سے ہی مدد مانگی جائے گی۔ واپس اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جائے۔
بجلی کا بھاری بل ایک اور غریب کی جان لے گیا
بس بھئی بس بہت ہو گئی۔ اب تو بجلی بل صارفین کی جان نہیں لے رہا کھلے لفظوں میں ان کا قتل کر رہا ہے۔ کوئی نہر میں کود رہا ہے کوئی نالے میں کوئی پھندا لے رہا ہے اور کوئی ریل کی پٹڑی پر سر رکھ کر جان دے رہا ہے۔ کسی یورپی ملک میں ایسا ہوتا تو اب تک حکومت نہیں تو کم از کم وزیر توانائی اور بل وصول کرنے اور بھیجنے والے محکمے کے افسران واپس گھر بھیج دیے جاتے اور ان پر مقدمات قائم ہو چکے ہوتے۔ مگر ہمارے ہاں تو حساب ہی الٹا ہے۔ بقول انشا اللہ خان انشا:
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب بھی الٹا
جی ہاں یہ بجلی بل وصول کرنے والے اربوں روپے زبردستی صارفین کے جیب سے نکلواتے ہیں چاہے بجلی آئے نہ آئے بل پورے وصول کرتے ہیں اور جان بے چارے غریب لوگوں کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز کوٹ رادھا کشن میں ایک نوجوان نے 10 ہزار روپے بل آنے پر بل تو نہیں دیا کیونکہ اوقات ہی نہیں تھی البتہ جان ضرور دے دی کہ اس پر ہی اس کا بس چلتا تھا۔ نوجوان نے ٹرین کی پٹڑی پر سر رکھ کر خودکشی کر لی سر علیحدہ ہوا دھڑ علیحدہ۔ یوں قصہ ختم ہوا۔اس ظلم عظیم کا حساب کون دے گا۔ یہاں نہ سہی آخرت میں تو سارے ذمہ داران خواہ کتنے بڑے طاقتور ہی کیوں نہ ہوں ان سےاس قتل اور اس جیسے باقی غریبوں کی جان جانے کا انتقام ضرور لیا جائے گا۔ کہتے ہیں نا جن کا والی وارث کوئی نہیں ہوتا ان کا وارث اللہ ہوتا ہے جو حاکم الحاکمین ہے۔ اس کی پکڑ بڑی سخت اور عذاب بہت شدید ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ خدائی پکڑ کا لمحہ آن پہنچے حکمران خود ہی بجلی بلوں کے حوالے سے عوام کو ریلیف دیں تاکہ عذاب کا وقت کچھ دیر کے لیے ٹل سکے ورنہ بڑے بڑے مضبوط حکمران چشم زدن میں عرش سے فرش پہ آ گرتے ہیں۔
یوم آزادی پر سبز پرچوں کی بہار اور ملک کو سرسبز بنانے کا عزم
گزشتہ روز قوم نے نہایت عقیدت و جوش و جذبہ کے ساتھ یوم پاکستان منا کر اپنے وطن سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ ہر سال یہ دن مناتے ہوئے پاکستانی اپنے تمام مسائل اور اختلافات کو بھول جاتے ہیں۔ اس دن پورا ملک واقعی بے مثال یگانگت کا ثبوت دیتے ہوئے واحد قوم کی مثال بن جاتا ہے۔ پورے ملک کو دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے۔ ہر طرف سبز رنگ کی بہار ہوتی ہے۔ گلی کوچے گھر ہر جگہ یہ پرچم ترقی و کمال لہراتا ہے اور حقیقت میں ہم ثابت کرتے ہیں کہ
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
اور دعا ہوتی ہے کہ یہ پرچم دنیا بھر میں اسی شان و شوکت سے لہرائے۔ یہ سبز رنگ کی بہار ہمیشہ یونہی چھائی رہے مسکراتی رہے۔ اس بار حکومت اور عوام کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے ملک بھر میں جس شجرکاری مہم کا آغاز ہوا ہے خدا کرے وہ کامیاب ہو اور پچھلی حکومت کی طرف سے کروڑوں درخت لگانے والے کاغذی منصوبے کی طرح ناکام نہ ہو۔ اس وقت ہمارا وطن عزیز بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں شامل ہے۔ اگر ہم نے درخت نہ لگائے تو آئندہ برسوں میں مزید خراب اور گرم موسم ہماری دھرتی کو بنجر بنا کر رکھ دیں گے۔ اس لیے ہمیں ہر جگہ درخت لگا کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ وطن بدلے موسمی حالات سے محفوظ رہے اور ہمارا پیارا وطن واقعی سرسبز و شاد و باد رہے۔ یہاں زندگی کی خوشیاں مسکراتی رہیں اور ہم ترقی و خوشحالی کی سیڑھیاں چڑھتے رہیں۔ ملک میں درختوں کی قلت ختم کرنے کے لیے ہر پاکستانی اپنے حصہ کا کام کرے اور کم از کم دو درخت لگائے کیونکہ پاکستان کو جنگلات کی بے دردی سے کٹائی کے بعد 2 ارب درختوں کی ضرورت ہے تاکہ موسمی سختیوں اور تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکے۔
معلوم نہیں حکومت کس کی ہے، فرنٹ پر کوئی اور ہے ڈور کسی اور کے ہاتھ ہے۔ فضل الرحمن
لگتا ہے مولانا سمیت بے شمار اپوزیشن رہنماو¿ں کو ابھی تک اس دشت کی سیاحی میں اک عمر گزارنے تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ملک کون چلا رہا ہے۔ ڈوریاں کس کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر یہ سب اتنے نادان بلونگڑے شلونگڑے ہیں تو پھر بہتر تھا کہ یہ سیاست کی کی بجائے کہیں کوئی اور کام کاج تلاش کریں۔ حجرہ سنبھالیں، ٹرانسپورٹ چلائیں یا بار میں جا کر کہیں تلاش کریں۔ یہ زیادہ بہتر ہے کم از کم اس طرح انھیں یہ تو پتا ہو گا کہ وہ کس قسم کا روزگار چلا رہا ہے۔ بہرکیف مولانا بھی بڑی پہنچی ہوئی چیز ہیں۔ اس طرح وہ تماشا دکھانے والوں کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے اور لوگوں کو بتانا بھی چاہ رہے ہیں کہ میں سب کچھ جانتا ہوں کہ فرنٹ سیٹ پر کوئی ہے اور چلا کون رہا ہے۔ بھلا یہ کون نہیں جانتا یہ کون سا ایک کروڑ کا سوال ہے۔ یا معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ کب سے مولانا ہمیشہ حکومت کے آنگن میں ہی ڈیرے ڈالے رہتے تھے۔ ڈی آئی خان کے بعد اسلام آباد کا حکومتی ڈیرہ ان کے پسندیدہ مقام تھے۔ اس وقت بھی یہی گاڑی چلانے والا کوئی اور ہوتا تھا اور فرنٹ پر کوئی اور۔ تب مولانا کو کسی پر اعتراض نہیں تھا تو
یہ آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی قبول
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
والا شکوہ کیسا۔ بے شک جمہوریت میں ہماری بقا ہے مگر جب سیاستدان خود جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر تل جائیں تو غیر جمہوری عوامل خودبخود تو پھر چلیں ایک بار سب سیاستدان مل کر ایمانداری سے فرنٹ سیٹ سنبھالیں اور ڈوری ہلانے والوں کی راہ مسدود کر دیں اس طرح آپ لوگوں کا شکوہ بھی ختم ہو جائے گا اور سارا میدان آپ لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گا اور سب کو معلوم ہو گا کہ حکومت کون چلا رہا ہے۔
جمعرات‘ 9 صفر المظفر1446ھ ‘ 15 اگست 2024
Aug 15, 2024