ہیپی برتھ ڈے ٹو پاکستان

Aug 15, 2024

نگہت لغاری

افسوس میرے کالم کے آج کے عنوان کے الفاظ میرے مظلوم ہم وطن تبدیل کر کے گا رہے ہیں یعنی ©"bad birthday to Pakistan" ۔ کرہ ارض کے نقشے پر ایک ملک پاکستان کی مہر تصدیق جب ثبت ہوئی تو تمام قوموں نے چونک کر دیکھا کہ ایک دھان پان ناتواں سے شخص نے یہ دھماکہ خیز مہر ثبت کی۔ یہ شخص قائداعظم کہلایااور دیکھنے والوں نے بے ساختہ کہا ’واہ قائداعظم“پھر اس کے پیروکاروں نے اس واہ کو آہ میں تبدیل کردیا ۔اس شخص نے دن رات اپنے لوگوں کو ایک الگ گھر بناکر دینے کے عزم کو نبھانے کے لیے دن رات مزدوری کی ،اپنے ساتھی مزدوروں کی چھوٹی سی ٹولی کے ساتھ باقاعدہ مٹی گاراگوندھا ۔برطانوی اور ہندوستانی طاقتور لوگ اس دھان پان سے شخص کو مزدوری کرتے دیکھتے تو اس کا مذاق اڑاتے مگر وہ اپنی ہی دھن میں کسی بات پر کان دھرے بغیر مکان کی اُساری میں لگا رہے مگر افسوس !اس جانکا مزدوری نے ان کی صحت نگل لیا ۔
آہستہ آہستہ اور وہ مکان بہت جلد اس کی تربت بن گیا ۔جب لوگ اس کے گرد کھڑے رو رہے تھے توقائداعظم کے ڈاکٹروں نے انکشاف کیا کہ ہمیں اس کی بیماری کا علم تھا اور ہم نے اسے وارننگ بھی دے رکھی تھی کہ وہ اپنے محنت کے اوقات کم کردیں تو انھوں نے جواب دیا تھا اب جب میرے لوگوں کے اس گھر میں آباد ہونے کا وقت قریب آگیا ہے تو میں اپنا کام کیسے کم کرسکتا ہوں ۔اگر میری زندگی اس کام میں کام آجائے تو مجھے پرسکون موت آئے گی۔قائد اعظم کی وفات پر اس وقت کے حاکم لارڈماونٹ بیٹن نے حیران کن الفاظ کہے تھے ۔اس نے کہا تھا کہ’ اگر ہمیں علم ہوتا کہ مسٹر جناحؒ برصغیر کی تقسیم کے بعد اتنی جلد فوت ہوجائےں گے توہم برصغیر کا بٹوارہ ہی نہ کرتے ہندو چونکہ آبادی میں زیادہ تھے اس لیے یہ سارا برصغیر ان کا حق بنتا تھا۔‘
پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد انھوں نے ایک آسٹریلوی صحافی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا’پاکستا ن دنیا کے نقشے پر ایک الگ ملک کا نام نہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کی طویل فہرست میں ایک اہم ترین اضافہ ہے©©“۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک مختصر تقریر میں کہا تھا ’ میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں ۔قوم کو جس الگ گھر کی ضرورت تھی میں نے تعمیر کردیا ہے اور اسے مل گیا ہے اب قو م کا فرض ہے کہ اس گھر کو قائم رکھے اور اس کے رنگ و روغن کو ماند نہ پڑنے دے۔‘ایک اور جگہ فرمایا:محمدﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں اور میں رسول اکرمﷺ کا پیغامبر ہوں ۔میں ان کی ساری تعلیمات قوم تک پہنچانا چاہتا ہوں۔مجھے علم تھا کہ جب تک میرے لوگوں کے پاس اپنا الگ ٹھکانہ نہیں ہوگا وہ ان تعلیمات کو سہولت اور آزادی سے ادا نہیں کرسکیں گے ۔میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اس ملک کے حاکموں کو اسلامی احکامات پر سختی سے عمل کرنا ہوگااور اپنی زندگی کو اسلامی سادگی اور دیانت داری کے ساتھ گزار نا ہوگی کیونکہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے ۔اس ملک کے حاکم اپنی عوام کے ملازم ہوں گے ۔
 پروٹوکول کے پیاسوں، مال کے متوالوں او ر جاگیر داروں کی اس ملک میں کوئی گنجائش نہیں ۔کامن ویلتھ کے تمام ممبر زاسلامی روایات کے مطابق ایک مقرر کردہ الاونس وصول کرنے کے حق دار ہوں گے ۔زمین کا اصل مالک صرف کاشت کار ہوگا ۔ایک بار ایک مشہور عالم دین نے انھیں تین چیزوںپر مشتمل تحفہ بھیجا۔وہ چیزیں یہ تھیں ۔قرآن حکیم،جائے نماز اور تسبیح۔اس تحفے کے جواب میں انھیں شکریہ کے خط میں جو کچھ لکھا میں سمجھتی ہوں کہ یہ سوچ اور ایمان انھیں آئمہ کرام کی فہرست میں شامل ہونے کا حق دیتے ہیں ۔انھوں نے جواب میں لکھا آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ مقد س تحفہ مجھے بھیج کر اس قابل سمجھا۔ میں انھیں استعمال کرنے کی پوری کوشش کروں گا ورنہ یہ اس تحفے کے بے حرمتی او ر آپ کے خلوص کی بے قدری ہوگی ۔میں اس جائے نماز پر نماز ضرور پڑھوں گا اور قرآن مجید کو انگریزی ترجمے کے ساتھ پڑھوں گا کیونکہ میری اردوں کچھ کمزور ہے اور چونکہ میں حضورا کرمﷺ کی ذات کو محسن ِانسانیت سمجھتا ہوں اوران سے بے حد محبت کرتا ہوں ۔میں اس تسبیح پر درود شریف پڑھ کر تن سے اپنی عقیدت اور محبت کا ثبوت پیش کروں گا۔“
لوگ قائد اعظم کو ایک مغرب زدہ انسان سمجھتے تھے کیونکہ ان کا لباس اور گفتگو مغربی لوگوں جیسی تھی حالانکہ وہ ایک مجبوری تھی کیونکہ یہ اس وقت حاکموں کا طرز زندگی تھا اور اس طرز کو اپنانے ہی میں کسی حد تک عافیت تھی ۔قائد اعظم انتہائی دیانتدار ،سچے اور صاحب کردار انسان تھے ۔ان کے بتائے ہو ئے اصول اور ضابطے اب بھی تاریخ میں محاوروں کا مقام رکھتے ہیں ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی اور پیشے میں ہمیشہ دیانتداری اور سچائی کو اعلیٰ مقام پر رکھا ہے ۔ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ان کے لوگوں کے لیے تعویذ بنالینے کے لیے کافی ہے اگر ان کے دل میں اپنے میرِ کارواںکے لیے ذرا سی بھی محبت ہو۔ایک امیر تاجر اپنا ایک کیس ان کے پاس لایا اور پوچھا آپ اس کی کتنی فیس لیں گے؟فرمایا :پندرہ سو روپے روزانہ۔اس نے انھیں پندرہ ہزار روپے دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی مقررہ فیس ہی لیں ۔فی الحال میرے پاس یہی رقم ہے ۔اگر مقدمہ طول پکڑ گیا تو میں باقی رقم بھی ادا کروں گا ۔اتفاق سے قائد اعظم نے وہ مقدمہ دو دن میں جیت لیا اور جب باقی رقم تاجر کو واپس کی تو وہ حیران رہ گیا اور ان سے درخواست کی یہ رقم آپ رکھ لیں ۔آپ نے انتہائی غصے میں رقم واپس کرتے ہوئے کہا :تم نے یہ جرات کیسے کی ۔میں اپنی مزدوری کے لیے فالتو معاوضہ بھی قبول کروں گا ۔ جب گورنر جنرل بنے تو ان کے انگریز سکیورٹی انچارج کرنل برنے(Col Burney) نے ان سے کہا کہ وہ ان کے حفاظتی مقاصد کی خاطر گورنر جنرل ہاوس کی دیواریںکچھ اونچی کروانا چاہتے ہیں تو جواب میں قائد اعظم نے سختی سے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔مجھے اپنے لوگوں سے کوئی ڈر نہیں ۔میں انہی لوگوں میں سے ہوں۔

مزیدخبریں