لندن اور گردو نواح کی کاﺅنٹیز میں پیدا ہونیوالے اور یہاں کے انگریزی ماحول میں پروان چڑھنے والے چند ذہین بچوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ برطانوی پاکستانیوں کو 14 اگست کو ہی پاکستان کیوں یاد آتا ہے؟
یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ ایک مقامی تقریب میں یہ سوال ایک بچے نے مجھ سے اس وقت پوچھ یا جب میں 14 اگست کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈال رہا تھا۔ قائداعظم کے فرمودات بیان کئے ہی تھے کہ بچے نے مجھ سے یہ مشکل ترین سوال پوچھ کر مجھے بے بس کردیا۔ بچوں نے کہا کہ سال کے 11 ماہ تو آپ لوگ پاکستانی Imported Politics سیاست چمکانے کیلئے اخبارات میں بیانات ”مورتیں“ لگوانے میں گزار دیتے ہیں‘ مسجد میں ایک دوسرے کو سنی‘ وہابی‘ بریلوی اور دیوبندی کے ٹائٹل دیتے رہتے ہیں مگر 23 مارچ اور 14 اگست کے قومی ایام آتے ہی آپ لوگ ہمیں ایسی تقریبات میں پاکستان کی اہمیت‘ آزادی وطن کیلئے دی گئی قربانیوں اور بنیادی حقوق کا درس دینے لگ جاتے ہیں۔ خود آپ لوگ قائداعظم کے فرمودات پر عمل نہیں کرتے اور ہمیں آزادی وطن کیلئے دی گئی قربانیوں کے حصول سے آگاہ کرتے ہیں۔ آخر یہ Hypocrisy نہیں تو اور کیا ہے؟
یہاں جنم لینے کے بعد یہیں جوان ہونیوالے ان بچوں کے ان سوالوں میں حقیقتاً بڑا دم تھا۔ گویا ان بچوں نے مجھے ہی نہیں‘ پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ ان بچوں کا سوال کہ 14 اگست ہی کو ہمیں پاکستان کیوں یاد آتا ہے‘ حقیقت تھی جو گزشتہ 58 برس سے آشکار نہیں ہو سکی تھی۔ میں خود بچوں کے سوال سے متفق تھا۔ دکھ صرف اس بات کا تھا کہ جو سوال ہم ”بڑوں“ کو اپنے آپ سے بہت پہلے کرنا چاہیے تھا‘ برطانیہ میں پیدا ہونیوالے بچے وہ سوال ہم سے کر رہے تھے۔ اس تقریب کا ماحول چونکہ خالصتاً غیرسیاسی تھا‘ اس لئے میں دیکھ رہا تھا کہ بچوں کے اس سوال نے کئی والدین کے سر ندامت سے جھکا دیئے تھے۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ ان بچوں کو منافقت یا احساس محرومی میں الجھا کر ان کا ذہنی استحصال کروں۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کے ”’سوکالڈ“ سیاسی رہنماﺅں کے کرتوت بیان کرکے ان بچوں کے ذہنوں کو مزید الجھایا جائے۔ میں تو ان بچوں کو محض یہ بتانا چاہتا تھا کہ جس پاکستان کو ہم 14 اگست کے دن ہی یاد کرتے ہیں‘ درحقیقت مسلمانوں کیلئے خدا تعالیٰ کی جانب سے یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ اس خداداد مملکت کا قیام کیوں عمل میں آیا‘ مملکت اسلامی بنانے سے اصل مراد کیا تھی‘ 76 برس گزرنے کے باوجود ہم فلاحی ریاست کا خواب پورا کیوں نہ کر سکے؟ ان بچوں کو جو Teenager سے Adult بن چکے تھے اور پاکستان اب ان کا دوسرا وطن ہو چکا تھا‘ انہیں ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالے سے اسلامی ریاست اور اس کو چلانے والوں کی بنیادی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی کچھ باور کرانا چاہتا تھا۔ اسلامی استحقاق کے حوالے سے حضرت عمر فاروقؓ کی اس رات کی گشت کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کرنا چاہتا تھا جس میں انہوں نے ایک ننھے منے بچے کے رونے کی آواز سن کر بچے کی ماں سے رونے کی جب وضاحت طلب کی تو ماں کا جواب دن کر عمر فاروقؓ اپنے ہی صادر کئے حکم کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا یہ حکم تھا کہ ویلفیئر نظام ریاست کیلئے جب تک بچہ دودھ نہ چھوڑ دے‘ اسے سرکاری وظیفہ نہ دیا جائے مگر اس ماں نے جب یہ کہا کہ بچے کا دودھ وہ زبردستی چھڑوا کر وظیفہ کا حصول ممکن بنا رہی تھی تو حضرت عمرؓ خلیفہ کانپ اٹھے اور یوں ہر نوزئیدہ بچے کیلئے سرکاری وظیفے کا اعلان کر دیا۔
میں یہ بھی چاہتا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور آئیڈیالوجی آف پاکستان کے حوالے سے بھی بات کروں۔ ان ننھے ذہنوں کو ”بیوروکریسی“ کے 76 سالہ کردار سے بھی آگاہ کروں۔ حقوق انسانی اور بنیادی حقوق کی بحالی کے تحفظ پر بھی روشنی ڈالوں مگر افسوس! کوشش کے باوجود میں مذکورہ بالا واقعات اور موضوعات پر تفصیلی روشنی نہ ڈال سکا۔ دوران اظہار خیال باربار میرے ذہن میں ان بچوں کے منہ سے نکلے کلمات کہ یہ منافقت نہیں تو پھر کیا ہے؟ مجھے میرے منہ سے نکلنے والے لفظوں کے آگے رکاوٹ بنے رہے۔
بچے سچ ہی تو کہہ رہے تھے‘ یوم پاکستان پر محض تقریر کرنے‘ پرچم کشائیاں کرنے یا تصویریں اتروانے سے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ شامل غزل یا نغمہ سرائی سے پاکستان کا وہ مقصد پورا نہیں ہو پاتا جس کا ہم نے عہد کیا تھا۔ بچوں کو واقعی ہم کس منہ سے کہیں کہ چلو آج ”یوم پاکستان“ ہے۔ کاش! ان بچوں کی تربیت میں ہم نے پاکستانیت کو اجاگر کیا ہوتا۔ خود ہمیں اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے اور مسجدوں میں ”کرسی“ کے حصول کیلئے ”ڈانگ سوٹا“ چلانے سے تو فرصت نہ مل سکی۔ برطانوی دوروں پر ہر چوتھے ماہ آئے پاکستانی لیڈروں کے قریب تر ہونے کیلئے مرغی کی روسٹڈ ٹانگوں سے انکی تواضع سے خود تو فراغت حاصل نہ کر سکے مگر یوم پاکستان‘ قرارداد پاکستان اور استحکام پاکستان ایسے قومی دنوں کے ساتھ ہی بچوں کو ”تاریخ پاکستان“ کا درس دینے لگتے ہیں۔ بچوں نے مجھ سے ٹھیک سوال یہ تو کیا تھا کہ ”کہیں ہم منافق تو نہیں بن گئے۔“
کاش! کوئی لیڈر اس سوال کا جواب دے پائے‘ اے کاش!!