وزیراعظم شہباز شریف کا بوسیدہ نظام کو بدلنے کا عزم

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ جڑیں کھوکلی کرنے والا نظام بدلیں گے۔ 500 ارب روپے سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے۔ زراعت کے لیے بجلی سستی کرنا ہوگی۔ قومی استحکام اور ملک کے لیے ہر چیز کی قربانی دیں گے۔ کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں معیشت کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ بجلی کے شعبے میں کافی محنت اور کوشش ہوئی ہے۔ پیداواری اخراجات میں کمی کے بغیر برآمدات کو بڑھانے اور اسے مسابقتی بنانا ممکن نہیں۔ اس میں بجلی کی قیمت کا اہم کردار ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہے۔ بجلی، توانائی اور ایف بی آر ہمارے لیے اہم ترجیحی شعبے ہیں۔ ہم نے ایف بی آر سمیت کئی اداروں کے لیے مشیر تعینات کر دیے ہیں۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ بجلی چوری کی روک تھام ، لائن لاسز میں کمی اور ترسیلی نظام میں بہتری حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے کی ترجیحات ہیں۔
شہباز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ اپریل 2022ءمیں وہ 16 ماہ کے لیے وزیراعظم بنائے گئے تھے۔ وہ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی جماعتوں پلس پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) پر مشتمل حکومت تھی۔ دوسری مرتبہ اب پھر شہباز شریف وزیراعظم بنے ہیں۔ اب ان کی اتحادی جماعتیں 2022ءکے مقابلے میں کم ہیں۔ پاکستان کے لیے شہباز شریف بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اتفاق سے پیپلز پارٹی بھی آج مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں حامی ہے جبکہ سندھ میں اس کی بلا شرکت غیرے حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو گزشتہ دور میں شہباز شریف کے وزیر خارجہ تھے وہ بھی پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے عزم و ارادے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کی کی طرف سے گزشتہ روزحکومت سندھ کو کہاگیا کہ کرپشن ایک ناسور ہے اور اس کے خاتمے کے لیے کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہ کیا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے بھی کرپشن کے حوالے سے سنجیدہ بیانات دیے جاتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران دونوں پارٹیوں کی طرف سے 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کے اعلانات کیے گئے تھے۔ یہ اعلانات انتخابی نعرے اور دعوے ثابت ہوئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جڑیں کھوکھلی کرنے والا نظام بدلنے کے اعلان کا اعادہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے قوم کو یہ بھی بتایا ہے کہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ مزید برآں ترسیلی نظام میں لائن لاسز کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ بجلی سے متعلقہ وزیر اویس لغاری کی طرف سے بجلی چوری کی 23 اپریل ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ اس کے بعد بھی بجلی چوری ہوتی ہے تو ان سے جواب دہی کی جا سکتی ہے۔ لائن لاسز اور ترسیلی نظام یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 2008ءمیں اس وقت بھی مسئلہ درپیش تھا جس کے بعد ایک مرتبہ پیپلز پارٹی اور تیسری مرتبہ مسلم لیگ (ن) حکومت میں آ چکی ہے۔ سب سے زیادہ اگر کسی معاملے کو نظر انداز کیا گیا ہے تو کپیسٹی پیمنٹ کے بعد وہ بجلی کی ترسیل کا سسٹم ہے۔ وزیراعظم سستی بجلی کی بات کرتے ہیں۔ بجلی زراعت صنعت ہر شعبے اور گھروں کی ضرورت ہے۔ بجلی سستی اور وافر نہیں ہوگی تو صنعت اور زراعت سمیت کوئی بھی شعبہ ترقی نہیں کر سکے گا۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے خصوصی طور پر کپیسٹی پیمنٹ آج یہ صارفین پر آسمانی بجلی بن کر گر رہی ہے۔ مذکورہ معاہدوں پر نظر ثانی کی بات تو کی جاتی ہے مگر عملی قدم نہیں کیا جا رہا۔ یہ معاہدے عام صارفین کی زندگی کو اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے کئی خاندان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔ خودکشیوں کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی آر ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہے، ایف بی آر کے احیائے نو اور محصولات میں بہتری کے بغیر مالی گنجائش ملے گی نہ ہی قوم آگے ترقی کر سکتی ہے۔ وزیراعظم درست کہتے ہیں مگر پہلے ایف اے بی آر کی ٹیوننگ یا اسے ریفائن کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بڑے معاشی ماہرین میں سے شبر زیدی کی طرف سے کہا گیا تھاکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے آدھے لوگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہے ٹیکس کلیکشن میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ گھروں میں بیٹھے رہیں اور ان کو تنخواہیں ادا کی جاتی رہیں تو یہ ملک اور محکمے کے لیے بہتر ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے سے تنخواہوں کی ادائیگی سے قبل ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ان پر ٹیکس ریٹرن جمع کروانے ہیں پر زور دیا جاتا ہے اس کا طریقہ کار اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی ریٹرن کا فارم خود پُر کر کے جمع نہیں کرا سکتے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ہر حکومت مسیحا سمجھتی ہے۔اس کے ہر پروگرام کو آخری پروگرام قرار دے کر اس کے بعد مزید پروگرام بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر وہی اعلان دہرایا جاتا ہے کہ یہ آخری پروگرام ہوگا۔ کس کو نہیں پتا کہ آئی ایم ایف امریکا کے زیر اثر ہے اور امریکا کے پاکستان کی نسبت بھارت کے ساتھ کہیں زیادہ بہتر تعلقات ہیں۔ آئی ایم ایف پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ بجٹ اس کی ہدایت کے مطابق بنایا گیا۔ اس کے بعد بھی اسی کے کہنے مزید ٹیکس لگائے گئے۔ قیمتوں کے تعین میں بھی آئی ایم ایف کی دخل اندازی جاری رہتی ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے ہم نے اپنا سارا ڈیٹا رکھ دیا، وہ اسے کہاں کہاں اور کس طرح استعمال کر رہا ہوگا اس کی کوئی پروا نہیں۔
جڑیں کھوکھلی کرنے والے نظام سے نجات مطلق مشکل نہیں۔ اسے بڑی آسانی کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے۔ آج مرکز میں پورے پاکستان کی دو تین پارٹیوں کے سوا سب کی حکومت ہے۔ صوبوں کی بات کی جائے تو کوئی بھی پارٹی حکومت سے باہر نہیں ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی پیپلز پارٹی کی سپورٹ سے مضبوط حکومت قائم ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی اقتدار میں ہیں تو بوسیدہ نظام کی تبدیلی میں کیا امر مانع ہے؟ حکومتی قیادتیں عوام کو نہ بتائیں کہ کیا کرنا ہے بلکہ قومی اور عوامی مفاد میں جو کرنا ہے مصلحتوں سے بالاتر ہو کر گزریں۔

ای پیپر دی نیشن