لاہور (رپورٹ ندیم بسرا) میں نے پاکستان بنتے دیکھا کا احوال سناتے ہوئے محمد منشاء خان راجپوت نے کہا کہ پاکستان بننے کے وقت 1947ء میں میری عمر تقریباً چودہ برس تھی۔ ہمارا پیارا پاک وطن عزیز پاکستان اگست 1947ء میں معرض وجود میں آیا اور یہ پاک سرزمین جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی لاکھوں مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور پیرو جوانوں کی قربانیوں کا عظیم ثمر ہے۔ میرے آبائی علاقہ کا نام تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی ہے اور گائوں کا نام کلہانہ ہے۔ ہمارے گائوں اور وہاں کے اردگرد کے علاقوں میں اس وقت مسلمان، ہندو، عیائی سب مل جل کر ایک فیملی کی طرح رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ایک دوسرے کے کام بھی آتے تھے۔ جب 1947ء میں تقسیم کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت پورے ملک میں لوٹ مار شروع ہو گئی مسلمان اور سکھ ، ہندو آپس میں کئی جگہوں پر لڑائی اور جھگڑے کرتے قتل و غارت عام ہو گئی تھی تو ایسے ہی ہمارے گائوں کلہانہ سے بارہ تیرہ میل دور ایک علاقے میں بھی سکھوں، ہندوئوں اور مسلمانوں میں بڑے فسادات ہوئے قتل و غارت کا بازار گرم تھا مسلمان اور کئی سکھ عورتیں بچیاں خود کو بچوں سمیت کنوئوں میں چھلانگ لگا کر ختم کر دیتیں اور ا پن عزتوں پر سمجھوتہ نہ کرتیں۔ مسلمانوں کو جب پتہ لگتا کہ ہندوستان میں وہاں کے ہمارے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو بے گھر کر کے برے طریقہ سے انتہائی بے دردی سے قتل کر کے ان کی بے گورو کفن لاشوں کو بھی پامال کیا جا رہا ہے تو یہاں کے مسلمان ملکر جتھوں کی شکل میں ہندوئوں اور سکھوں کو مارنا شروع کر دیتے اور مسلمان بھائیوں کا بدلہ لینے کی کوشش کرت تھے۔ ایسے ہی ایک مسلمانوں کے جتھے کے ہمراہ میں بھی سکھوں اور ہندوئوں کو مارنے کے لیے گیا اس وقت چونکہ میری عمر بھی 13 سال تھی تو میں بھی ان کے ساتھ وہاں پہنچ گیا تو ایک خاص جگہ سے آگے نہیں جا سکتے تھے جو آگے جائے گا مارا جائے گا چنانچہ جب ہم جتھے کی صورت میں وہاں پہنچے تو وہاں موجود ہندو تو بھاگ نکلے مگر سکھ موجود رہے ان سے ہم لڑے وہ بھی بھاگ گئے۔ میرے والد عبدالخالق تحریک آزدی پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ مگر آج پاکستان کے حالات دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت آئے گا پورا ملک بہت پریشان ہے اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے حالات بدل دے اور اس وطن کو سچا پکا مخلص دیندار حکمران قائد نصی فرمائے۔ آمین