جکڑنے والی رسیوں کو توڑ نا ہی اچھا

نصرت مرزا ۔۔۔۔
امریکی حکمران دنیا بھر کے لوگوں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ آخر دنیا کے لوگ امریکہ سے کیوں اتنی نفرت کرتے ہیں۔ اس کا سیدھا سادا جواب تو یہی ہے کہ وہ انتہائی مغرور ہیں اور ساری دنیا کو اپنی مملکت سمجھتے ہیں۔ دھونس دھمکی‘ قتل و غارتگری‘ دوسرے ممالک میں مداخلت‘ اپنی مرضی کی حکومت کو مسلط کرنا‘ اپنی بالادستی کیلئے کسی قانون یا قیود کو خاطر میں نہ لانا یہ عمومی فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے امریکن ناپسندیدہ بن جاتے ہیں۔ اگرچہ خود امریکی عوام سادا اور کھلے دل کے لوگ ہیں لیکن امریکی حکومتیں ان کو غلط اطلاعات فراہم کرتی رہتی ہیں اور ان کو دھوکہ دیتی ہیں اور ان کو سچائی سے بے خبر رکھتی ہیں۔ اسلئے ہی تو کارٹر انتظامیہ کے دور کے سلامتی کے مشیر برزنسکی نے اپنی کتاب ہی ”دی گرینڈ چیس بورڈ“ میں لکھا ہے کہ امریکی عزائم کی راہ میں جو سب سے زیادہ رکاوٹ بنے گے وہ ان کے اپنے عوام ہیں9/11کے واقعہ نے امریکی عوام کی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ دور کر دی۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے عوام کو مل کر امریکی عوام کو امریکی حکومت کے شر سے بچانا چاہئے اور کسی کو امریکی بدمعاشی کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو وہ پاکستان میں دیکھے جہاں پر یہ امریکی بلیک واٹر نامی تنظیم کی شکل میں یا اسلحہ کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہمیں یا پھر پاکستان کے تمام عوام کو اسددرانی سے اتفاق ہے اور کیونکہ انہوں نے بیان دیدیا ہے‘ اس لئے ہم اس اطلاع کا کریڈٹ ان ہی کو دیں گے اگرچہ ہم خود بھی یہ ہی سوچ رہے تھے کہ امریکی حکام پاکستانی عوام کو کا فی کمزور اور ان کے لڑنے کی صلاحیت اپنے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھتے‘ مگر امر واقعہ ہے کہ پاکستانی ذاتی طور پر معدودے چند کے علاوہ خودداری اور غیرت کا پیکر ہیں اور امریکی مسلح افراد سے نہ خود لڑ پڑیگا اور ایسی لڑائی ہو گی جس میں کافی خون بہنے کا خطرہ ہے۔ اگر امریکی حکام نے اپنے ان بدمعاشوں کو جو سکیورٹی کے بہانے دندناتے پھر رہے ہیں اور دھمکیاں دینا‘ دھونس جمانا اور اسلحہ دکھا کر فائر کھولنے کا اظہار کرنا روز مرہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ مگر ہمیں یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ہمارے ممدوح شہباز شریف کی حکومت کی طرف اخباری اطلاعات کے بموجب یہ احکامات جاری ہو گئے ہیں جو کہ زبانی ہیں کہ ان امریکی مسلح افراد‘ جو کالے شیشے کی گاڑیوں میں پورے پنجاب یا لاہور میں گھومتے پھر رہے ہیں ان سے صرف نظر کیا جائے‘ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ یہ لوگ یا جو لوگ بھی پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں کریں جب پاکستان میں روز خود کش دھماکے ہو رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ایک فیصد تک یا ایک امکان یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ امریکی دراصل میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس لئے ان سے رعایت کیوں کی جائے یہ لوگ سفارتی آداب و قوانین سے بالاتر کیوں مان لئے جائیں جب پاکستانیوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہیں۔ روز یا چند دنوں کے وقفے کے بعد پاکستان کے عوام کو پشاور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور اور اب ملتان تک میں خود کش دھماکوں یا مسلح افراد کے حملوں سے واسطہ پڑ رہا ہو اور جبکہ ان کا ہدف عوام ہوں یا پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں یا پاکستان کی جاسوس تنظیمیں تو پھر کسی کے ساتھ رعایت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام میں ناپسندیدہ وزیر داخلہ رحمن ملک تک یہ کہتے ہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے تو اس وقت کیوں امریکیوں کو پاکستان کے قانون کو روندنے کی اجازت دی جائے دوسرے ہی سانس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں القاعدہ طالبان اور کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں پھر یہ تصدیق بھی کرتے ہیں۔ جیسے ہم جھوٹ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر کے نام کی کوئی تنظیم نہیں۔ اگر کسی بٹیر نے اپنا نام زاہد رکھ لیا ہو اور تکنیکی طور پر یا امریکیوں کے دباﺅ میں یا ان کی نمائندگی کرتے ہوئے بٹیر کو زاہد ہی مان لیں تو درست نہیں۔ امر واقعہ وہ ہے جو امریکی اخبارات لکھ رہے ہیں کہ بلیک واٹر کی تنظیم کا وجود ہے اور وہ پاکستان میں موجود ہے اور جو بظاہر امریکی سفارت کاروں کی سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہی ہے اگر اس میں جنرل اسد درانی کے انٹرویو کو ملا کر دیکھیں تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں بلیک واٹر بھی ملوث ہے تو غلط بات نہیں ہو گی۔ وہ لاکھ کہتے رہیں مگر پاکستان کے عوام وزیرداخلہ یا حکومت کے کسی وزیر کے بیان کو خاطر میں نہیں لاتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ بلیک واٹر پاکستان اور اسلام دشمنی امریکی سفارت کاری کے کور میں کر رہی ہے۔ اس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ ہم کم از کم میاں شہباز شریف یہ کہیں گے کہ وہ پاکستان کی بقا اور پاکستان کی خود مختاری کو قائم کرنے میں اپنے فرائض سے غفلت نہ برتیں اور ان امریکیوں کو لگام دیں۔ ان کو یہ بتائیں کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ امریکہ کا بندہ بے دام نہیں اور اگر دام کی بات ہے تو وہ بھی پاکستان کو جکڑنے والی رسیاں ہیں۔ جکڑنے والی رسیوں کو توڑنا ہی اچھا ہے تاکہ امریکہ کے پروردہ یہ نہ کہہ سکیں کیونکہ وہ ہمیں امداد دیتے ہیں تو ان کے ہمارے ملک میں مداخلت کا اختیار ہے۔ پاکستان کی خودمختاری کی ڈینٹٹ لگانے‘ پاکستانی پولیس کو دھمکیاں دینے اور پاکستانی عوام کی توہین کرنے اور وزیراعظم پاکستان کے تکیہ کلام کے ایک حصہ یعنی ان کا حق بنتا ہے۔ کہتے پھریں ہم ایسے حق کو رد کرتے ہیں اور ہم آزاد ملک کے طور پر رہنا چاہتے ہیں کیا میاں شہباز شریف اس میں ساتھ دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن