رچرڈ ہالبروک اور ان کی ناکام سفارتکاری

رچرڈ ہالبروک آنجہانی ہو گئے۔ ملک افغاناں میں امریکہ کی قابض فوج کی روز روشن کی مانند ناکامیوں کی طرح صدر اوباما کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان ہالبروک کی سفارتکاری بھی دو سال کے عرصے میں کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکی۔ براک اوباما نے انہیں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد اس منصب پر فائز کیا تھا۔ ہمارے خطے میں امریکہ کے خصوصی سفیر کی حیثیت سے ان کا مشن تھا کہ امریکی فوجی پسپائی کو سفارتکارانہ کامیابی میں بدل دیں۔ یوں حالیہ تاریخ میں چچا سام کو ویت نام کے بعد دوسری بڑی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رچرڈ ہالبروک دو سال کی زبردست سفارتکاری اور ماضی میں بوسنیا وغیرہ میں کامیابیوں کے ریکارڈ کے باوجود مرنے سے پہلے سخت مایوسی کا شکار تھے۔ افغانستان کے طالبان مزاحمت کاروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ اگرچہ ان کی شہرت ایک آہنی سفارتکار کی سی تھی وہ اپنی بات منوانا جانتے تھے۔ نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران 1995ء معاہدہ ڈیٹن طے کراکے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ تب سربیا کے وحشیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جو معاہدہ کرایا اس کا وہ آخر دم تک کریڈٹ لیتے رہے کہ نسل کشی کو بند کرایا لیکن حقیقت میں مغربی حکومتوں کی نظر میں ان کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ یورپ کے اندر مسلمانوں کی آزاد بوسنیائی ریاست کے قیام کو روک دیا۔ اس کے آگے معاہدے کا بند باندھ دیا۔ اس کی بنا پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے ان کی خدمت کا بہت اعتراف کیا گیا۔ وہ یورپ جو پوری یونین میں ترکی کے داخلے کی مخالفت کرتا چلا آیا ہے وہ اپنے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ انہی صلاحیتوں کی بنا پر رچرڈ ہالبروک کو صدر اوباما نے پاکستان و افغانستان میں اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ افغان دلدل میں پھنسی ہوئی امریکی افواج کو نکال لے جانے کی راہ اس طرح ہموار کریں کہ واحد سپر طاقت کے ماتھے پر شکست کا لیبل نہ چسپاں ہونے پائے۔ امریکہ اور ناٹو کے ممالک کو اپنے فوجیوں کی لاشوں کی صورت میں ہر ہفتے جو تحفہ وصول کرنا پڑتا ہے اس سے بھی گلوخلاصی ہو۔ ابتدا میں صدر اوباما کا خیال تھا انہیں پاکستان و افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت کے لئے بھی اپنا سفیر خصوصی مقرر کریں۔ لیکن نئی دہلی نے سخت مخالفت کی کیونکہ اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے راہ نکلتی تھی۔ رچرڈ ہالبروک کی دو سالہ سفارتکاری اپنا ہدف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ آخری ایام میں ان کے چہرے سے مایوسی بڑی آسانی سے پڑھی جا سکتی تھی انہیں یہ مشکل درپیش تھی کہ 16 دسمبر کو اوبامہ جو افغان پالیسی پر جو نظرثانی کرنے والے ہیں اس کے خدوخال کیا ہوں گے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ اپنے دفتر خارجہ میں کام کے بوجھ اور مایوسیوں کے ہجوم میں دل کے عارضے نے انہیں دبوچ لیا۔ فوراً ہسپتال پہنچایا گیا اور تین روز کے اندر اس جہان فانی سے چل بسے۔ ان کی جگہ کون لے گا۔ یہ سوال زیادہ اہم نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خطہ ارض کی واحد سپر طاقت کے لئے قومی نفسیاتی سطح پر اس ننگی حقیقت کا ادراک کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے کہ اسے نہتے افغانوں کے ہاتھوں تاریخی شکست کا سامنا ہے۔ امریکی اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آج سے بیس برس پہلے امریکہ نے انہی افغانوں کے جذبہ حریت اور بے مثال مزاحمت کاری سے فائدہ اٹھا کر اپنے سب سے بڑے حریف سوویت یونین کو وہاں سے بوریا بستر لپیٹ لینے پر مجبور کر دیا۔ یہ امر دنیا کی دوسری بڑی طاقت کے تتر بتر ہو جانے اور اس کے اشتراکی نظرئیے کی فوری ناکامی کا سبب بنا۔ اب جو بہادر اور آزادی کے متوالے افغانوں نے اپنی سرزمین وطن پر امریکی فوجی قدموں کو بھی لہولہان کرکے رکھ دیا ہے تو امریکی قیادت اس آئینے میں اپنے سامراجی کردار کا بھیانک چہرہ دیکھنے کی بجائے آئینے ہی توڑ کر رکھ دینے پر مصر ہے جو اس کے بس کا روگ نہیں کہ سامنے افغان بھی پتھر اٹھائے کھڑے ہیں۔ رچرڈ ہالبروک کے جانشین کے طور پر جو بھی آئے گا منہ کی کھائے گا۔

ای پیپر دی نیشن