میمو سکینڈل کےمرکزی کردارمنصور اعجازنےاپنا اکاسی صفحات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں داخل کردیا ہے ۔

منصور اعجاز نے اپنا جواب بذریعہ ای میل سپریم کورٹ کو ارسال کیا ہے جو عدالت کو موصول ہوگیا ہے۔ اکاسی صفحات پر مشتمل جواب میں آئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشا کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ منصور اعجاز کے مطابق ان کی جنرل شجاع پاشا سے بائیس اکتوبر کی شام ساڑھے چھ بجے لندن میں ملاقات ہوئی جو ساڑھے دس بجے تک جاری رہی۔
ملاقات کے دوران احمد شجاع پاشا اپنے ساتھ نوٹ بک اور الیکٹرانک ڈیوائیسز لائے تھے۔ملاقات میں منصور اعجاز نے آئی ایس آئی کے چیف کو میمورنڈم دکھایا جو انہوں نے تین منٹ میں پڑھ لیا اور کہا کہ اس کے مندرجات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے پانچ مئی دوہزارنو کو حسین حقانی کے کہنے پر واشنگٹن میں صدر آصف زرداری سے ملاقات کی جو پینتالیس منٹ تک جاری رہی ۔ منصور اعجاز نے اپنے تحریری جواب میں حسین حقانی کی جانب سے کی جانے والی ای میلز اور موبائل فون پیغامات کا ریکارڈ بھی پیش کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چار پاکستانیوں کے علاوہ ان کا کبھی کسی سے رابطہ نہیں ہوا تاہم ہوسکتا ہے کہ حسین حقانی نے اپنی سرگرمیوں کے حوالےسے باقاعدہ حکومت سے بات نہ کی ہو۔ منصور اعجاز نے مزید کہا کہ ان کے جواب کے ساتھ تمام ثبوت شامل ہیں اور وہ عدالت میں بھی پیش ہونے کو تیار ہیں۔ منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے اور امریکی مفادات کا تحفظ ہی ان کی اولین ترجیح ہے تاہم وہ امریکہ میں کبھی کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہوئے۔ ۔منصور اعجاز کے جواب کی کاپیاں آرمی چیف اور میاں نواز شریف کو بھی ارسال کر دی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے صدر، سربراہ پاک فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دیگر آٹھ فریقین کو جلد جواب داخل کروانے کے لئے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے میمو گیٹ سکینڈل کی سماعت کرنے والے بینچ میں بھی معمولی ردوبدل کیا ہے اورجسٹس امیر ہانی مسلم کی جگہ جسٹس اطہر سعید کو بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا نو رکنی لارجر بینچ انیس دسمبر کو کیس پر کارروائی کرےگا ۔

ای پیپر دی نیشن