اگر بنیاد اسلامی نہیں تو مسلمانی کیسی ؟


پولیٹیکل اسلام کی ترکیب جس ذہن نے بھی ایجاد کی اس کی نیت یقینا نیک نہیں تھی۔ یہ ذہن لازماً اسلام کو دو حصوں میں بانٹنا چاہتا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کا مقصد اسلام کی دو قسمیں بیان کرنا تھا۔ ایک قسم وہ اسلام جو چند مخصوص عبادات تہواروں اور رسوم پر مشتمل ہے اور دوسری قسم وہ اسلام جو سیاست میں دخل دیتا ہے اور جو ریاست معاشرے اور معیشت کی تشکیل میں ایک فعال اور موثر کردار ادا کرتا ہے۔
مغربی تہذیب اور اسکے پرچم برداروں کو پہلی قسم کے ”اسلام“ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس ”اسلام“ پرعمل کرتے رہنے کی اجازت اُن صدیوں کے دوران بھی مسلمانوں کو حاصل رہی جو صدیاں مسلم ممالک نے مغربی سامراجی قوتوں کی نوآبادیوں کی حیثیت سے گزاریں۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج تقریباً دو صدیوں تک برصغیر ہند پر قابض اور حاکم رہا۔ اس دوران مسجدیں بھی قائم رہیں۔ اذانیں بھی ہوتی تھیں۔ نمازیں بھی پڑھی جاتی تھیں‘ روزے بھی رکھے جاتے تھے اور عیدیں بھی منائی جاتی تھیں مگر اسلام کو ایک فعال اور موثر سیاسی پلیئر کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اُس اِسلام پر برصغیر کے دروازے بند تھے جس کا پرچم آنحضرت نے اپنے منہ بولے شہید بیٹے حضرت زید بن حارث ؓ کے فرزند حضرت اسامہ بن زید ؓ کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ”جاﺅ سرزمین حجاز کے اُس طرف موجود باطل کی قوتیں تمہارے شوق ِ جہاد کے نشانے پر آنے کی منتظر ہیں۔“
مغربی تہذیب کے پرچم بردار اور ثنا خواں جب بھی پولیٹیکل اسلام کی ترکیب استعمال کرتے ہیں تو انکے ذہنوں میں اسلام کا تصورِ جہاد ہوتا ہے‘ یا پھر قوانینِ خداوندی توڑنے والوں کیلئے متعین قرآنی سزائیں ہوتی ہیں اور شاید وہ قیودو حدود بھی ہوتی ہیں جن کا تعلق عورت کے معاشرتی کردار اور رویوں کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے رشتے سے منسلک نازک فطری حقیقتوں سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بے اختیار جو اصطلاح ذہن میں آتی ہے وہ ”شریعت“ ہے۔ جس طرح پولیٹیکل اسلام کی ترکیب ”ہدف ِ تنقید“ بنتی ہے‘ اسی طرح ”شریعت“ کی اصطلاح کو بھی مغربی یا مغرب زدہ ناقدین تمسخر وتضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ فوراً سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ”کون سی شریعت؟ اہل تشیع کی شریعت؟ اہل سنت کی شریعت؟ دیوبندی شریعت ؟ بریلوی شریعت ؟ یا وہابی شریعت؟“
بدقسمتی سے عربی زبان سے ناآشنائی کے سبب ہم بہت سارے الفاظ اور متعدد اصطلاحوں کے صحیح مفہوم نہیں جانتے۔ مثال کے طور پر ”جہاد“ کی اصطلاح تنہا صرف ”جہد“ یا کوشش کے معنوں میں استعمال ہونی چاہئے۔ جس جہاد کو اسلام میں واجب اور لازم قراردیا گیا ہے وہ ”جہادِ فی سبیل اللہ“ ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جہاد کے ساتھ قتال کو بھی فرض کا درجہ تب ملتا ہے جب وہ اللہ کی راہ میں ہو۔ جو لوگ آنحضرت کی حیاتِ مبارکہ سے پوری آگہی رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ قتال آپ کا پسندیدہ آپشن ہرگز نہیں تھا۔ آپ کی کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ جہاد کے مقاصد قتال کے بغیر حاصل ہوجائیں۔ قتال تب جہاد کا حصہ بنتا تھا جب اسکے بغیر ”مقاصدِ جہاد“ کا حصول ناممکن ہو جاتا تھا۔ اسی طرح شریعت کی اصطلاح بھی لفظ شارع سے نکلی ہے۔ ”شارع“ اس کچے راستے کو کہا جاتا تھا جو پانی کے تالاب یا کنویں کی طر ف جانیوالے اونٹوں کے پاﺅں سے خود بخودبن جایا کرتا تھا۔ پانی چونکہ ’ وجہ¿ حیات“ ہے اس لئے ”شارع“ کو ایک طرح کی تقدیس عطا ہوگئی اور یہ تقدیس شریعت کی اصطلاح کو منتقل ہوئی۔ گویا شریعت وہ راستہ ہے جو ”حیات“ کی طرف جاتا ہے۔
اہل مغرب نے مسلمانوں کو اپنی ”بنیادوں“ سے متنفر کرنے کیلئے ایسے تمام الفاظ کے اردگرد اختلاف اور ابہام کا تانا بانا بُنا جو اُنکے سینوں میں ”حرارت ِ ایمانی“ قائم رکھنے کا سبب بن سکتے تھے۔
میں اس ضمن میں 1857ءکی جنگ آزادی کے حوالے سے اس کمیشن کا ذکر کروں گا جو تاجِ برطانیہ نے سرہنٹر کی سربراہی میں مسلمانوں کی نہ ختم ہونیوالی شورش پسندی کے اسباب تلاش کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ 1860ءمیں اِس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی۔ اس میں بتایا گیا کہ جب تک مسلمانوں کو شریعت کے تقاضوں سے ہٹایا نہیں جائیگا اور انکے عقائد سے ”جہاد“ کی تڑپ زائل نہیں کی جائیگی سید احمد شہید‘ سید اسماعیل شہید اور تیتو میر شہید جیسے ”شورش پسند“ پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگاکہ ہنٹرز رپورٹ کے بعد ہی سرکار کی سرپرستی میں ایسی مذہبی تحریکو ں کا سلسلہ شروع ہوا جن کا مقصد مسلمانوں کو تصور ِ جہاد اور شریعت سے دور کرنا تھا۔ آج بھی مغربی تہذیب اور اسکے حاشیہ بردار اِسی مہم پر لگے ہوئے ہیں۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں افغان جہاد میں جنرل ضیاءالحق مرحوم کے کردار کا ذکر کیا تھا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابلِ تردید ہے کہ افغان جہاد بنیادی طور پر دو سپُر پاورز کے درمیان ایک تاریخی کشمکش کے نتیجے میں شروع ہوا تھا۔ امریکہ اور اسکی حلیف قوتوں کو یہ بات کسی بھی طور پر منظور نہیں تھی کہ سوویت یونین کی سرحدیں اُن گرم پانیوں کے اِسقدر قریب پہنچ جائیں جن کی خاطر The Great Gameیا ”بالادستی کے ایک بڑے کھیل“ کا آغاز ہوا تھا‘ چنانچہ کابل کو روسی قبضے سے آزاد کرانے کیلئے ایک ایسی جنگ کی منصوبہ بندی کی گئی جس میں ”مال“ اور ”بارود“ کا ایندھن اگرچہ امریکہ نے فراہم کرنا تھا لیکن جسے مطلوبہ نتائج کے حصول تک پہنچانے کیلئے پاکستان کی بھرپور شرکت ناگزیر تھی۔ یہ تاریخ کا ایک معنی خیز اتفاق تھاکہ جس وقت اس جنگ کی منصوبہ بندی ہوئی اس وقت پاکستان کی قیادت جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ میں تھی جن کا ”اسلامی ایجنڈا“ کا بل پر روس کی چڑھائی سے پہلے ہی سامنے آچکاتھا۔میں نے یہاں ”اسلامی ایجنڈے“ کی ترکیب مثبت معنوں میں استعمال کی ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ ایک حقیقی مسلم مملکت میں اگر حکومت کا ایجنڈا ”اسلامی“ نہ ہو تو اسکے سامنے خود بخود ویسے ہی سوال کھڑے ہونے شروع ہوجاتے ہیں جیسے سوال آج کے دور میں پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ اسلامائزیشن کی منزل کی طرف جو راستہ جنرل ضیاءالحق نے اختیار کیا وہ درست تھا یا نہیں‘ اس پر تو بحث ہوسکتی ہے‘ مگر یہ کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیاءالحق کو اسلامائزیشن کا اختیار حاصل نہیں تھا کیوں کہ انہیں اقتدار عوام کی مرضی سے نہیں بندوق کے زور پرملا تھا۔
ایک مسلم مملکت میں اگر کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو وہاں خدا کی حاکمیت کا نظام لانے کیلئے اسے عوام کی مرضی کی ضرورت قطعی طورپر نہیں۔ اسلامائزیشن کا مطلب قرآن کے قوانین کے نفاذ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
اگرجنرل ضیاءالحق نے قرآن کے قوانین کے برعکس کوئی قانون نافذ کرنے کی جسارت کی تھی تو وہ واقعی قابلِ گردن زدنی تھے لیکن اُن پر تو یہ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے قرآن کے قوانین نافذ کرنے کی جسارت ہی کیوں کی؟“ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ”افغان جہاد“ کی منصوبہ بندی کے وقت پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی حکومت نہ ہوتی تو یہ درحقیقت امریکہ کی ہی جنگ بنتی اور بنی رہتی‘ اسکی ”اونر شپ“ اس انداز میں پاکستان کو نہ ملتی جس انداز میں اسے ملی۔ میں بہت سارے جنرلز سے ملا ہوں جو جنرل ضیاءالحق کے ساتھی تھے۔ ان سب کا خیال ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے اُس جنگ کو ایک ”جہاد“ کے طور پر ہی اختیار کیا تھا اور انکے سامنے وسطی ایشیا کی محکوم مسلم مملکتوں کو سوویت استعمار سے آزادی دلانے کا عظیم مقصد بھی تھا۔ آنیوالی نسلیں جب بھی اسلام کی نشاة ثانیہ کی تاریخ لکھیں گی تو ”افغان جہاد“ کو ایک سنگ میل کا درجہ دیں گی۔ کیونکہ جس پولیٹیکل اسلام سے مغرب ا س قدر خائف ہے اس میں جان افغان جہاد نے ہی ڈالی تھی۔ یہ ترکیب اس لحاظ سے گمراہ کن ہے کہ یہ اسلام کو تقسیم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اسلام اگر پولیٹیکل نہیںتو ہے ہی نہیں۔ اسلام کا تو مقصد ہی خدا کی زمین پر خدا کی حاکمیت قائم کرنا ہے۔ اس کا آغاز ریاست ِمدینہ کے قیام سے ہوتا ہے۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں کرہ¿ ارض کا بائیس لاکھ مربع میل علاقہ اسلام کے تسلط میں آجاتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ چندہزار افراد پرمشتمل فوج 13 برس کے عرصے میں اتنے بڑے علاقے پر قابض ہوجائے۔ مگردرحقیقت یہ ”قبضہ“ نہیں تھا۔ اسلام نے خلق ِ خدا کو شہنشاہوں کی محکومیت سے آزادی دلا کر خدا کی حاکمیت میں دے دیا۔ اگر مغربی تہذیب کے پرستار پھر بھی پولیٹیکل اسلام کی ترکیب استعمال کرنے پر بضد ہیں تو اسلام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...