اسلام آباد (نامہ نگار + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے چیئرمین نیب کی جانب سے یومیہ 10 سے 12 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے پہلے یومیہ سات ارب روپے کرپشن اور پھر دس سے بارہ ارب روپے کرپشن کی بات کی ہم نے ان سے استفسار کیا تھا کہ یہ کس مد میں کرپشن ہو رہی ہے جس کے جواب میں چیئرمین نیب نے اڑھائی صفحے کی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زرعی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اگر زرعی ٹیکس نہیں لگایا گیا تو ہم کہتے ہیں کہ ایوان کو زرعی ٹیکس کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہئے۔ دوسری بات چیئرمین نیب کی جانب سے کی گئی کہ ویلتھ ٹیکس لاگو نہیں ویلتھ ٹیکس کو قانون کے تحت ختم کیا گیا پھر کہا گیا کہ جی ڈی پی کے حجم کے اعتبار سے ٹیکس کا تناسب نو فیصد ہے اسے اٹھارہ فیصد کیا جا سکتا ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ کس طرح اٹھارہ فیصد ہو سکتا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ہے اور اس ہونے والی معاشی نقصانات کو بھی کرپشن کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ میں چیئرمین نیب کی بہت عزت کرتا ہوں، میں یہ نہیں کہتا کہ ملک میں کرپشن نہیں کرپشن ہو رہی ہے لیکن چیئرمین نیب نے کرپشن کی نئی تعریف کی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سینٹ میں سینیٹر ظفر علی شاہ نے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ ظفر علی شاہ نے نقطہ اعتراض پر کہا کہ نیب چیئرمین کے مطابق دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہو رہی ہے اگر اس کرپشن پرقابو پا لیا جائے تو بھٹو کے منشور روٹی کپڑا اور مکان پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ فرحت اللہ بابر کے بیان پر ظفر علی شاہ نے کہا کہ نیب بھی آپ کا ادارہ ہے اگر اتنے بڑے ادارے کے سربراہ نے غلط بیانی کی ہے تو حکومت نے کارروائی کیوں نہیں کی۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ میڈیا پر پارلیمنٹرین کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے کو بہت اچھالا جا رہا ہے کیا پارلیمنٹرین بننے پر ٹیکس لگتا ہے اگر کسی رکن کا ذریعہ معاش کوئی دوسرا نہیں تو کیسے ٹیکس دے۔ ایف بی آر کے افسروں کو معطل کرنا چاہئے، جب ہم ان سے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کی تفصیلات مانگتے ہیں تو ہمیں ڈیٹا فراہم نہیں کیا جاتا میڈیا مالکان کتنا ٹیکس دیتے ہیں ججز، جرنیل اور اینکرز پرسن کتنی تنخواہ لیتے ہیں وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں اسے بھی سامنے لایا جانا چاہئے اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن یہاں سب کی تذلیل کی جا رہی ہے سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایسی چیزیں جو کرپشن کے زمرے میں نہیں آتیں انہیں بھی کرپشن کے زمرے میں شامل کیا جا رہا ہے، حکومت کو بدنام کیا جا رہا ہے، نیب حکام کو بلایا جائے تو ہاﺅس اوپن رکھا جائے۔ آن لائن کے مطابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے چیئرمین نیب کے کرپشن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ چیئرمین نیب نے کرپشن کی جو وضاحت کی اس میں کوئی حقیقت نہیں، فصیح بخاری پہلے کہتے تھے کہ سات ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے جبکہ اب کچھ اور کہتے ہیں۔ زرعی، ویلتھ ٹیکس کے عدم نفاذ سے کون سی کرپشن ہورہی ہے اور اسی طرح بجلی اور لوڈ شیڈنگ کو بھی کرپشن میں شمار کرتے ہیں۔ چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ جی ڈی پی 9سے 18 فیصد پر چلی جائے تو ریونیو بڑھ سکتا ہے یہ بھی کرپشن کی مد میں دیکھتے ہیں۔ چیئرمین نیب فصیح بخاری ایوان میں آکر پارلیمنٹرین کو بتائیں کہ کرپشن کس طرح کی ہوتی ہے ان کے اس بیان سے دل آزاری ہوئی ہے۔ وزیر دفاع سید نوید قمر نے چیئرمین نیب کے بیانات کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کرپشن کے حوالے سے بیانات دیکر اپنے عہدے اور قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوید قمر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کس طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک میں روزانہ 7 ارب سے زائد کرپشن ہورہی ہے۔ الیکشن نزدیک آتے ہی پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کیلئے کرپشن کا شوشہ چھوڑا گیا، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ نوازشریف کو سندھ سے کچھ نہیں ملے گا، فوج اور حکومت کے درمیان اس وقت بہترین تعلقات ہیں۔