پاکستان بننے سے قبل اور بعد اکثربحرانی حالات کا راقم شاہدہے ۔ 3جون 1947ء کے بعد راقم کی پوسٹنگ GHQنئی دہلی سے آرمی ہیڈ کوارٹر ڈ ھاکہ میں ہوئی ۔ اس وقت ڈھاکہ میں کسی آرمی ہیڈ کوارٹر کا نام تک نہیں تھا معلوم نہیں کہ آرمی ہیڈکوارٹر کاغذی نام کس نے دیا۔ البتہ جن مسلمان افسروں کی تبدیلی ڈھاکہ میں ہوئی ان کیلئے احکامات یہ تھے کہ یہ لوگ کلکتہ کی فورٹ ولیم چھائونی میں جمع ہونگے۔ اور ان کو ڈھاکہ میں ایسٹ پاکستان آرمی ہیڈکوارٹر قائم کرنے کے لئے تمام ضروری سامان سٹیشنری وغیرہ اور ہتھیار گولہ بارود اور فورٹ ولیم چھاونی کلکتہ میں ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر مہیا کر یگا۔
10اگست 1947ء کے قریب جبکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے تمام مسلمان مغربی پنجاب کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔ میں شاید واحد مسلمان تھا جو الٹی طرف جا رہا تھا۔چنانچہ راقم12اگست1947ء کو کلکتہ فورٹ ولیم پہنچا وہاں کیپٹن ملک گل شیرپہلے ہی پہنچ چکا تھا ۔ ہم دونوں دہلی GHQمیں اکٹھے تھے اور اب دونوںبطور سٹاف کیپٹن ڈھاکہ جا رہے تھے۔ کلکتہ میں جناب سہروردی مسٹر گاندھی کے ساتھ موجود تھے۔ اس لئے بظاہر امن تھا لیکن فضا پاکستان کے سخت خلاف تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ بنگالی لوگ بہاریوں کی ہمسائیگی کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ باقی مسلمان بے شک بینگلور سے بھی آیا ہو اُسے پنجابی کہتے تھے۔جو فورٹ ولیم میں فوجی ہیڈکوارٹر اور ڈپو تھے ان کو سپریم کمانڈر سے احکامات مل چکے تھے کہ ہمیں ڈھاکہ میں آرمی ہیڈ کوارٹر بنانے کے لئے تمام ضروری سامان ہتھیار گولہ بارود فوری طور پر دئیے جائیں ۔ وہاں سینئر افسر سب انگریز تھے لیکن جونئیر افسر اور ماتحت عملہ کلیریکل سٹاف تقریباً سار ا ہی ہندو تھا۔ اس لئے ہمیں مسلسل انتظار کرایا جا رہا تھا۔ بالآخر کلکتہ میں موجود چند ایک یونٹوں کے مسلمان کمانڈروں نے مسلمان بھائی ہونے کے ناطے از خود بلا اختیار اور بغیر حساب کتاب کئے ہمیں کچھ سامان اور اسلحہ دے دیا۔ ان میں کچھ کمان افسروں کے نام مجھے یاد ہیں ایک تو میجر بادشاہ حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے۔ دوسرے میجر حسین جنہیں عرف میں ’’سٹفی حسین‘‘ کہتے تھے۔ لکھنو سے تعلق رکھتے تھے۔ تیسرے کیپٹن محمود احمد خان جو گور داسپور کے رہنے والے تھے اور بہار میں میری ہمسایہ یونٹ میں تھے۔ بہر حال ہم لوگوں نے 14اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کا دن خاموشی سے دعا ئیں مانگ کر منایا۔ دوسرے دن 15اگست کو ہندو افسروں نے بڑی شان و شوکت سے بھارت کا یوم آزادی بندے ماترم گا کر منایا۔ اس کے چند روز بعد ہم لوگ ایک اسپیشل ٹرین سے ڈھاکہ روانہ ہو گئے۔ وہاں کوئی باقاعدہ حکومت تو نہیںتھی اسلئے ہر طرف افراتفری نظر آتی تھی۔ تاہم تعجب اس بات پر ہوا کہ مشرقی پاکستان میں صدیوں بعد پہلا اسلامی فوجی ہیڈ کوارٹر بن رہا تھا لیکن عوام کی طرف سے یا سرکاری طور پر ہماری قطعاً کوئی پذیرائی نہیں ہوئی بلکہ کسی نے نوٹس تک نہیں لیا۔ اثنائے سفر ایک گھاٹ پر سامان کی منتقلی ہوئی یعنی ہندوئوں کے ریل ڈبوں سے سامان اُتار کر مسلمانوں کے ڈبوں میں رکھا گیا وہاں بنگالی قُلیوں نے ہمارا سامان اُٹھانے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ راقم نے خود اور کیپٹن گل شیر نے اورہمارے فوجیوںسے مل کر سامان ایک طرف سے اُتار کر دوسری طرف چڑھایا۔دوسری طرف مشرقی پاکستان بنگال کی حالت یہ تھی کہ عوام کے پاس کھانے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا حتیٰ کہ چاول بھی نہیں تھے ۔قیامِ پاکستان کے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 10ستمبر 1947ء کو سیکریٹری فوڈ سپلائی این ایم خان جو بہت سینئر ICS آفیسر تھے انھوں نے پنجاب حکومت کو پیغام بھیجا کہ بنگالی عوام کیلئے 5سے 10 ہزار ٹن چاول پنجاب سے فوری امداد بھیجی جائے ۔کیو نکہ ڈھاکہ کا براہ راست رابطہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہ پیغام آرمی کے سگنل کے ذریعہ سے راقم کے توسط سے بھیجا ۔ اس کے علاوہ پاکستان قائم ہونے سے قبل کلکتہ مین جو ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے اور جن کا نام تاریخ میں گریٹ کلکتہ کِلنگ (Killing)لیا جاتا ہے۔ اُس میں انہی این ایم خان صاحب نے فوری طور پر پنجاب سے راولپنڈی اٹک کے علاقہ کے ریٹائرڈ فوجی جوان بلا کر محکمہ سول سپلائی میں بھرتی کئے تھے جنہوں نے کلکتہ میں بنگالی مسلمانوں کی قیمتی جانوں کو ہندوئوں کے ظلم وستم سے بچایا ۔
آزادی سے قبل اور فوراً بعد ڈھاکہ اردو بولنے والا شہر تھا۔ ڈھاکہ ریڈیو پر زیادہ تر پروگرام اردو میں نشر ہوتے تھے۔ شہر میں اردو مشاعرے، اردو غزلوں کی محفلیں برپا ہوتیں ۔ ان میں سے بعض کی صدارت خواجہ ناظم الدین کرتے۔ پروفیسر عندلیب شادانی اپنا کلام سناتے اور لیلیٰ ارجمند بانو، اردو فارسی کلام میں اپنی آواز کا جادو جگاتیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈھاکہ ایک خالصتاً اسلامی شہر تھا۔ مسجد یں تعداد میں استنبول کے برابر اور ان مسجدوں میں ہر نمازتین چار بار با جماعت ادا ہوتی ۔ ہمیں شہر کے وسط میں ایک لائن دکھائی گئی۔ جو ہندو ڈھاکہ اور مسلم ڈھاکہ کو جدا کرتی تھی یہ بھی بتایا گیا کہ آزادی سے قبل ڈھاکہ میں مسلسل ہندو مسلم جنگ جاری رہتی تھی اس لئے اس حد فاصل کی ضرورت محسوس ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد ڈھاکہ میںہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ بظاہر تو یہ پر امن فضا تھی لیکن حقیقت میں نفرت کا رخ غیر بنگالی مسلمانوں کی طرف موڑا جا رہا تھا ۔ پروپیگینڈہ ہو رہا تھا کہ پنجابی بنگالیوں کو کھا جائیں گے۔ اس بارے میں سب سے پہلا تلخ تجربہ یو ں ہوا کہ تقسیم کے فوراً بعد کلکتہ حکومت نے سول سپلائی محکمہ کے تمام مسلمان گارڈ نکال کر ڈھاکہ بھیج دئیے ۔ بنگال کے وزیر اعظم سہروردی حکومت نے انہیں پنجاب کے سابق فوجیوںمیں سے بھرتی کیا تھا۔ اسی لئے کلکتہ میں انہیںچُھرا وردی فورس یعنی سہروردی فورس کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کلکتہ کے مشہور عظیم قتل عام میں بنگالی مسلمانوں کی حفاظت میں گرا نقدر خدمات سرانجام دی تھیں۔ ڈھاکہ پہنچنے پر مشرقی پاکستان حکومت نے نوکری میں رکھنا تو درکنار ان کو شہر میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔ چنانچہ آرمی ہیڈکوارٹر نے محض انسانی بنیاد پر ان کو تیج گائوں کیمپ میں ٹھہرایا اور جب تک مغربی پاکستان بھیجنے کا انتظام نہ ہوا ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ انہی دنوں ہم نے سنا کہ اکائونٹنٹ جنرل جناب سعید حسن کو غیر بنگالی ہونے کی وجہ سے بنگالی کلرکوں نے سیکرٹریٹ میں زدوکوب کیا (مشہور یہ ہوا تھا کہ ان کو جو تے مارے گئے) یہ صاحب بعد میں ایوبی دور میں منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چئیرمین اور چیف الیکشن کمیشنر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ خبر ذرا مبالغے سے مشہور کر دی گئی ہو لیکن ان سے ناشائستہ سلوک ضرور کیا گیا کیونکہ اس حادثے سے شدید متاثر ہو کر ان کے ڈپٹی راجہ سرفراز از خود ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے گھر راولپنڈی آکر بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان جانے سے انکار کر دیا۔ بالآخر سال دو سال بیکار بیٹھنے کے بعد ان کو پنجاب کا ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل متعین کیا گیا۔ اس وقت ڈھاکہ کے سیکرٹریٹ میں شاید صرف ایک بنگالی افسر مسٹر کبیر پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی کمشنر رحمت اللہ اور ایس پی عبداللہ دونوں ہی بہاری تھے۔ اسی طرح باقی اضلاع میں بھی اعلیٰ افسروں کی غالب اکثریت غیر بنگالی تھی۔ اگست 1947ء میں سروسز کے اعلیٰ کیڈر میں بنگالیوں کی کمی کیلئے پنجاب یا پاکستان کی مرکزی حکومت کو موردالزام ٹھہرانا قرین انصاف تو نہیں اور نہ ہی یہ بات غیر بنگالی افسروں کیساتھ زیادتی کا جواز مہیا کر تی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی مشرقی پاکستان میں ماسوائے بہاریوں کے تمام غیر بنگالیوں کو پنجابی کہا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہندو بالواسطہ حکومت کر رہے تھے اور غیر بنگالی مسلمانوں کیخلاف نفرت کا زہر پھیلا رہے تھے۔ مثال کے طور پرراقم اپنے ایک بہاری دوست کے عزیز کو ڈھاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ دلانا چاہتا تھا۔ یہ صاحب جناب حافظ شرف الدین متولی چھوٹی درگاہ بہار شریف کے بھتیجے تھے اورعلی گڑھ کے طالب علم تھے۔ کالج کے رجسٹرار سابق کپتان بنگالی مسلمان نے ان کو غیر بنگالی ہونے کی وجہ سے داخلہ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ انکے پاس کئی سیٹیں بنگالی ہندوئوں کیلئے خالی تھیں کیونکہ بنگالی ہندو داخلہ نہیں لے رہے تھے بالآخر بڑی مشکل سے ایک پنجابی کرنل ایف۔ ایم خان ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کی وساطت سے ان بہاری مہاجر کو داخلہ دلوایا گیا اور فیس داخلہ راقم نے اپنی جیب سے ادا کر دی۔ پھر سقوط ڈھاکہ تک یہ ڈاکٹر فہیم الدین بنگالی بھائیوں کی خدمت کرتے رہے۔ (باقی آئندہ)