کوئی چراغ سفر پر روانہ ہوگیا ہے

کوئی چراغ سفر پر روانہ ہوگیا ہے

 عین اس وقت جب ”قرارداد پاکستان“ کے شہر لاہور میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے تیرہویں اجلاس میں نظریہ¿ پاکستان کے تحفظ کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہددوہرایا جارہا تھا بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں عبدالقادر ملّا کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ عبدالقار ملّا کا جرم صرف یہ تھا ”قائداعظم کے پاکستان سے محبت اور وفاداری“۔ وہ 1971ءمیں پاکستان کو توڑنے کی اندرونی اور بیرونی سازشوں کیخلاف ڈٹ گیا تھا۔ وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا مخالف تھا۔ مشرقی پاکستان کے دفاع اور متحدہ پاکستان کی جنگ لڑنا اگر جرم تھا تو یہ جنگ افواج پاکستان نے بھی لڑی اور جن فوجی افسروں اور جوانوں نے 1971ءمیں مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان کی جنگ میں حصہ لیا۔اس جنگ میں شہید ہونیوالوں اور غازی کا رتبہ پانے والوں کو بجاطورپر جرا¿ت و شجاعت اور بسالت( بہادری) کے تمغے دئیے گئے۔افواج پاکستان اور پوری پاکستانی قوم کو اپنے ان شہیدوں اور غازیوں پر فخر ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سلامتی کی جنگ میں حصہ لیا۔ عبدالقادر ملاّ بھی شہید نظریہ¿ پاکستان ہے بلکہ شہیدپاکستان ہے۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے میجر صابر کمال بھی 1971ءمیں مشرقی پاکستان کی مقدس سرحدوں کی حفاظت کیلئے جنگ لڑتے ہوئے دسمبر کے دوسرے ہفتے میں شہید ہوئے تھے انہیں شہادت کے رتبہ پر فائز ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے دوبارہ ستارہ ¿ جرا¿ت دیا تھا۔ جب بھی ہم میجرصابر کمال شہید کو یاد کرنے کیلئے سیالکوٹ میںکوئی تقریب منعقد کرتے ہیں تو ایک عجیب طرح کی خوشبو تقریب کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ایسی خوشبو گلاب اور موتیے کے تازہ پھولوں میں بھی نہیں ہوتی۔ آج بھی دسمبر کا دوسرا ہفتہ ہے اور 1971ءکے 42 سال بعد نظریہ پاکستان کی شمع پر عبدالقادر ملاّ کی صورت میں ایک اور پروانہ قربان ہوگیا ہے ۔
 میرا یقین ہے کہ صابر کمال شہید اور دوسرے پاکستانی شہیدوں کی روحوں نے بڑے جوش اور مسرت سے شہید نظریہ¿ پاکستان عبدالقادر ملّا کی روح کو خوش آمدید کہا ہوگا۔عبدالقادر ملاّ نے بھی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے خاندان کے افراد سے ملاقات میں یہ پیغام دیا تھا کہ اُسکی موت پر آنسو نہ بہائے جائیں۔عبدالقادر ملاّ نے سزائے موت معاف کرنے کیلئے صدر سے رحم کی اپیل کی درخواست دینے سے بھی انکار کردیا تھا۔موت کی سزا سے بھی شہید پاکستان عبدالقادر ملاّ کے قدم ڈگمگائے نہیں۔ پاکستان سے وفا اور محبت کی یہ انتہا ہے کہ عبدالقادر ملاّ نے ایک غیر منصفانہ اور ظالمانہ سزا قبول کرلی مگر اپنے دامن پر معافی کا داغ نہیں لگنے دیا۔پاکستان کو اپنے فرزند کی اس دھج اور اس شان پر قیامت تک ناز رہے گا کہ اُس نے منصور کی طرح نخلِ دار پر اپنا سر رکھا لیکن اُس کی حب الوطن کی غیرت نے معافی مانگنا منظور نہیں کی....
 ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
 جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
 42 سال پہلے بھی قائداعظم کا پاکستان عبدالقادر ملاّ کا عقیدہ اور ایمان تھا اور ثابت ہوگیا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے 42 سال بعد بھی عبدالقادر ملاّ نے قائداعظم کے پاکستان کا جھنڈا بنگلہ دیش میں سربلند رکھا۔ جن لوگوں نے 42س ال پہلے دفاع پاکستان کی جنگ لڑی تھی اُن کے دل آج بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کیلئے دھڑکتے ہیں اسکی زندہ مثال بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنیوالے بہاری ہیں۔ بہاریوں کو بنگلہ دیش میں انسانی حقوق حاصل ہیں نہ شہری حقوق میسر ہیں۔ وہ وہاں پاکستان سے وفا کی سزا بھگت رہے ہیں ایک ایسی سزا جس کی کوئی معیاد مقرر نہیں قاتل کو عمر قید کی سزا دی جائے تو وہ بھی دس سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن پاکستان سے محبت کرنیوالوں کی سزا بنگلہ دیش میں ختم ہی نہیں ہوپاتی۔ عبدالقادر ملاّ اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ پھانسی سے اُسکی قید حیات ختم کردی اب وہ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوچکا ہے۔وہ شہادت سے پہلے انتہائی پُر سکون تھا اور اُس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تحریک اسلامی کے مشن کی راہ میں مجھے اپنی شہادت پر فخر ہے بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی شہادت سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اُس ملک میں تحریک پاکستان اب بھی زندہ ہے۔بنگلہ دیش کے حامیوں کے نزدیک پاکستان سے علیحدگی بنگالیوں کی تحریک آزادی تھی لیکن حقیقت میں وہ پاکستان کو توڑے کی تحریک تھی اور بنگالیوں کی نام نہاد جنگ آزادی کی پشت پر ہمارا ازلی دشمن انڈیا تھا۔ اس وقت افواجِ پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر جن لوگوں نے دفاع پاکستان کی جنگ میں حصہ لیا وہ پاکستان کے محسن تھے ان محبانِ پاکستان کو ایک ایسے ملک سے غداری کی سزا کیسے د ی جاسکتی ہے جو اُس وقت وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس وقت سارا پاکستان ایک ہی تھا،قائداعظم کا متحدہ پاکستان۔حیرانگی کی بات ہے کہ جنہوں نے ہندوستان کی فوج سے مل کر پاکستان توڑا وہ لوگ پاکستان سے محبت کو جرم قرار دے کر فرزندان پاکستان کو پھانسیوں کی سزائیں دے رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے منہ پر مجرمانہ خاموشی کے تالے لگے ہوئے ہیں۔اگر جنگی جرائم کی بنیاد پر سزائیں دینا درست ہے تو پھر مشرقی پاکستان سے گرفتار ہونیوالے جنگی قیدیوں کو کیوں رہا کیا گیا تھا۔ظاہر ہے کہ اس وقت بھٹو اور مجیب الرحمن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ جنگی جرائم کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں کسی کیخلاف مقدمات نہیں چلائے جائینگے۔ اگر جنگی جرائم ہی کو سامنے رکھنا تھا تو پاکستان کو توڑنے کا بڑا مجرم مجیب الرحمن تو مغربی پاکستان میں قید تھا۔ اُس کو بھی بھٹو نے رہا کردیا تھا آج اُسی مجیب الرحمن کی بیٹی بنگلہ دیش کی حکمران ہے کیا وہ ہم سے مجیب الرحمن کو آزاد کرنے کا بدلہ لے رہی ہے۔ کیا عبدالرحمن ملاّ کا جرم مجیب الرحمن سے بھی بڑا تھا۔حسینہ واجد کو سوچنا چاہئے کہ ہم نے پاکستان کے قاتل اسکے باپ مجیب الرحمن کو چھوڑا تو وہ بنگلہ دیش کا وزیراعظم بن گیا۔کیا اسی دن کیلئے ہم نے مجیب الرحمن کو رہا کیا تھا کہ اب اسکی بیٹی پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چُن چُن کر بنگلہ دیش میں تختہ دار پر لٹکا دے۔ حسینہ واجد کے اس ظلم سے اس کا اقتدار مضبوط نہیں ہوگا بلکہ بنگلہ دیش میں ایک نئی تحریک پاکستان ابھرے گی۔بنگلہ دیش بھارت کی تلوار سے بنا تھا اور پاکستان نے نظریے کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔عبدالقادر ملاّ نے ستون دار پر اپنے سرکار جو چراغ رکھا ہے اس کی لواب مدھم نہیں ہوگی....
 سرو ں کے پھول سرِ نوکِ نیزا ہنستے رہے
 یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی
انڈیا کے مسلمان شاعر عرفان صدیقی( وفات 2004ئ) نے دشمنوں کے درمیان زندگی بسر کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا....
 تُو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
 پاکستان کے ایک عاشق عبدالقادر ملاّ کی شمع حیات ضرورت بجھی ہے لیکن اس سے شہادت کا جو چراغ جلا ہے اُس نے اپنے پیچھے رہ جانے والوں کیلئے یہ زندہ پیغام چھوڑا ہے....
 جفا کی تیغ سے گردن وفاشعاروں کی
کٹی ہے برسرِ میداں مگر جُھکی تو نہیں

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن