امریکہ سے شکوہ کیوں؟

پاکستان کی سیاست میں امریکی فیکٹر ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن میں بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکہ کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اینٹی امریکہ سلوگن کے ساتھ میدان میں اُتریں لیکن ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ یہ ان کی دوغلی سیاست کا عمل دخل ہے یا پھر عوام اس بات کو الیکشن میں مینڈیٹ دینے کی بنیادی وجہ نہیں سمجھتے۔ لیکن جب واقفان حال یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہ امریکن ایمبیسی میں جا کر کس طرح اُن کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں تو پاکستانی عوام کے حُسنِ انتخاب کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ عرصہ دراز سے ملک گیر جماعتوں کی حیثیت سے ٹو پارٹی سسٹم کو رائج کیے ہوئے تھے لیکن تحریک انصاف کی تیسری قوت بن کر اُبھرنے کی وجہ سے سیاست تبدیل ہو کر رہے گی۔ تحریک انصاف نے پہلی دفعہ ڈرون حملوں کی مذمت اور سابقہ حکومتی خارجہ پالیسیوں کے خلاف کھلم کھلا سخت مؤقف اپنایا جس کو خیبر پی کے میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اپنے نعرے کو روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود رکھا۔ جبکہ مسلم لیگ نے کبھی بھی کھل کر الیکشن میں خارجہ پالیسی کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ ہی اس کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نقطہ بنایا۔ ہمارے دانشور تجزیہ کار اس بات کو فرض اولین سمجھتے ہیں کہ وہ ہر بڑے سیاسی فیصلے، تبدیلی، احتجاج، بحران کے ڈانڈے پینٹاگون یا وائٹ ہائوس سے ملائیں۔ اگرچہ اُن کے پاس اس کا کوئی ٹھوس ثبوت اور معلومات نہیں ہوتیں۔ ہم نے یہ رویہ قومی سطح پر اپنا لیا ہے۔ ہم نے ہر غلطی اور کوتاہی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر فرار کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ہم نے خود احتسابی کو اپنے اُوپر لاگو کرنا گوارا نہیںکیا۔ سیاستدان، بیورو کریٹس، میڈیا اور فوج ایک دوسرے پر امریکن لائن اختیار کرنے کے الزامات لگا کر خود کو فرشتہ اور دوسروں کو ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن 67 سال میں آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، کیا اس کا ذمہ دار امریکہ ہے؟ اس معاشرے کے زوال پذیر ہونے میں ہمارے بُرے اعمال کا کوئی عمل دخل نہیں؟ آج اگر پاکستان میں کروڑوں بچے تعلیم کی روشنی سے محروم ہیں تو کیا یہ ہمارے جاگیر داروں، نوابوں اور وڈیروں کی عوام کو غلام بنانے کی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ہر آنے والے حکمران کو بجٹ میں تعلیم کے لیے صرف 2% رکھنے کا کہا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں بچے علاج معالجہ سے محروم ہیں۔ کیا یہ بھی امریکہ کا کیا دھرا ہے یا ہمارے اُوپر سے لے کر نیچے تک بے حس حکمران جن کو غریب کے بچے کی آہ و پکار سُنائی نہیں دیتی اور خود کی اُولاد کو زکام بھی ہو جائے تو اس کا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔ کیا اس معاشرے میں وہ شیطان اور بھیڑیے بھی امریکہ نے بھیجے ہیں جو مریضوں کو چند ٹکوں کی خاطر جعلی دوائیاں بنا کر لاکھوں لوگوں کی زندگی کے چراغ گُل کر رہے ہیں۔ رمضان میں خدا کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور ہم اس مقدس مہینے میں ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافہ کر کے عام آدمی کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ امریکہ اور یورپ میں کرسمس کی آمد کے موقع پر تمام اشیاء پر تقریباً 50%  رعایت دی جاتی ہے۔ ہم اخلاقی پستی کا اس حد تک شکار ہیں کہ مُردوں کے گوشت کھانے کے واقعات نے ہمیں پوری دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہم معصوم بچیوں کو ونی کرتے ہیں اور جائیداد کی خاطر لڑکیوں کی قرآن سے شادی کرتے ہیں ۔ کیا یہ بھی امریکی رسم و رواج ہے یا ہمار ے اندر جائیداد کی حرص و لالچ نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ ہم نے جھوٹ کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ ہم دنیا کے بڑے ٹیکس چور ہیں جو سہولتوں کا رونا روتے ہیں اور اپنی قومی ذمہ داری سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ ہم نے اسلامی فلاحی معاشرہ کے نام پر بننے والی ریاست کو ذات برادری اور فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ملک میں اتحاد، اتفاق اور یکجہتی کی بجائے تفرقوں میں بٹ گئے اور ایک ہی ملک میں تین تین عیدیں منا کر ہم نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ مسجد بنا کر مذہبی قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ۔ مولانا پوپلز ئی اور ان کی طرح کے دوسرے علماء کرام تو امریکی اشاروں پر ناچنے والے نہیں لیکن قوم کو اپنے اشاروں پر نچانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہاں عدالتیں اٹھاون برسوں میں اپنا اعتماد عوام پر بحال نہ کر سکیں اور لوگ انصاف کے لیے در بدر پھرتے پھرتے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ جہاں کی افسر شاہی نے انسانوں کو غلام اور ملک کو مفت کا مال سمجھ کر لوٹا بھی اور حکمرانی بھی کی۔ کیا یہ بھی امریکن سفیر کی ڈکٹیشن تھی؟ امریکہ میں صدر کی بیٹی غلط ڈرائیونگ کرے تو اس کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کھانے اور ادویات میں ملاوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہسپتالوں میں علاج مفت اور تعلیم کی روشنی ہر ایک کے لئے ہے۔ افسوس کہ ہم نے دین حق سے منہ موڑا، ہم اپنے درخشندہ ماضی کو بھول گئے۔ ہم نے فلسفہ خودی اور قائداعظم کے افکار کو فراموش کر دیا اور غیروں نے ہمارے مذہب کی روشنی کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔ سپریم کورٹ آف امریکہ کی بیرونی دیوار پر تحریر نبی پاکؐ کا ذکرِ مبارک اُن کی ترقی کا راز ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے موروثی سیاست کو پروان چڑھایا۔ جعلی ڈگری اور جرائم پیشہ لینڈ مافیا کو ٹکٹیں فروخت کیں۔ پسند کی بنیاد پر وزارتیں بانٹی اور اپنی اُولادوں کو ملکی دولت لوٹ کر لندن، امریکہ اور دبئی میں کاروبار کروائے جبکہ امریکی صدر ایک غریب حبشی کا بیٹا ہے۔ کاش میرے دیس میں بھی وہ دن آئے جب کسی غریب کا بیٹا اس ملک کا صدر، وزیرِاعظم بن کر اپنے جیسوں کے دُکھ بانٹے۔

ای پیپر دی نیشن